Maktaba Wahhabi

64 - 933
الصحیح الجامع میں روایت کیا ہے اور صحیح بخاری کو أصح الکتاب بعد کتاب اللّٰہ اور اس کی روایات کو تمام اُمت کابالاتفاق صحیح ماننے کا اعزاز حاصل ہے۔ امام ابوعبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے طرق کو ایک رسالہ میں جمع کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ حضرت عمر، ہشام بن حکیم بن حزم، عبدالرحمن بن عوف، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس، ابوسعید خدری، حذیفہ بن الیمان، ابوبکرہ، عمرو بن العاص، زید بن ارقم، انس بن مالک، سمرۃ بن جندب، عمرو بن ابی سلمہ، ابوجہم، ابوطلحہ، اُم ایوب انصاری، سلیمان بن حرد، عثمان بن عفان، رضی اللہ عنہم سمیت ۲۱ صحابہ کی جماعت نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابویعلی موصلی رحمہ اللہ اپنی کتاب مسند کبیرمیں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک روز منبر پرکھڑے ہوکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ میں ان حضرات کو خدا کاواسطہ دیتا ہوں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ:((إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف)) سنے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں ۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت مسجد میں کھڑی ہوگئی جس کی گنتی نہیں ہوسکتی تھی اور سب نے اس پرگواہی دی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’میں بھی اس پر گواہ ہوں ۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن الوجیز فی أصول الفقہ للدکتور عبدالکریم زیدان کے اُرد و ترجمہ جامع الاصول کے صفحہ۲۱۱ پر تواتر کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تواتر کی ایک قسم لفظی ہے اور یہ متواتر کی اعلیٰ قسم ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ایسا تواتر پایا ہی نہیں جاتا، لیکن دوسرے علماء کہتے ہیں کہ ایسا تواتر مندرجہ ذیل چھ اَحادیث میں موجود ہے۔ (۱) ((إنما الاعمال بالنیات)) ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ (۲) ((البینۃ علی المدّعی والیمین علی من أنکر)) ’’دلیل مدعی کے ذمہ ہے اور انکار کرنے والے پرقسم‘‘ (۳) ((من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار)) ’’ جو مجھ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر عمداً جھوٹ بولے وہ اپناٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘ (۴) ((لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ)) ’’ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ (۵) ((إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف)) ’’یہ قرآن سات حروف پرنازل کیا گیا ہے‘‘ (۶) (( إنکم سترون ربکم یوم القیامۃ کما ترون ھذا القمر لیلۃ البدر)) ’’تم اپنے رب کو قیامت کے دن یوں دیکھو گے جیسے چودہویں شب میں چاند کو دیکھتے ہو۔‘‘ چنانچہ حدیث((أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)) کو متواتر کہا گیا ہے اور متواتر بھی لفظی ہے۔ الغرض علمی اعتبار سے اس حدیث میں کوئی نقص نہیں صرف تواتر کا ہونا تمام نقائص کی نفی کے لیے کافی ہے اور علماء کی تصریحات بھی اس پر ہیں ۔ تواتر کی فنی حیثیت کے بارے میں قارئین کو جان لینا چاہئے کہ : ’’والمتواتر لا یبحث رجالہ بل یجب العمل بہ من غیر بحث‘‘[ نخبۃ الفکر] ’’متواتر حدیث کے راویوں کے بارے میں بحث نہیں کی جاتی اوربلا تحقیق و بحث اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔‘‘ جہاں تک اس حدیث کو ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے ذریعے ناقابل اعتبار کہنے کا تعلق ہے تو درحقیقت یہ وہ بنیاد
Flag Counter