Maktaba Wahhabi

363 - 933
قسط چہارم ڈاکٹر عبد العزیز القاری ٭ مترجم: محمد عمران اسلم ٭ ٭ ضابطہ ثبوتِ قراءات کا تفصیلی جائزہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کے کلِّیۃ القرآن الکریم کے سابق پرنسپل ڈاکٹر عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ کی شخصیت کا یہ امتیاز ہے کہ موصوف کا قراءات عشرہ کے ساتھ ساتھ اَصل ذوق فقہ و اُصول فقہ کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار مدینہ منورہ یونیورسٹی میں سرپرست ماہنامہ رشد مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کے قریبی ترین ساتھیوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ کلِّیۃ الشریعہ کے چار سالہ تعلیمی سفر میں دونوں جلیل القدر اصحاب ِعلم کے بیٹھنے کی نشستیں مسلسل ساتھ ساتھ رہیں ۔ مولف کا زیر نظر مضمون سہ ماہی مجلہ کلّیۃ القرآن الکریم سے ماخوذ ہے۔ مقالہ کا تعلق حدیث سبعۃ أحرف اور اس کے متعلقات سے ہے، لیکن ہم نے اس کے موضوعات کے پیش نظر اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا تھا، جس میں سے دو حصوں کا ترجمہ پچھلے شمارہ میں اور ایک حصہ کا ترجمہ اس شمارے کے گزشتہ صفحات میں پیش کیا جاچکا ہے۔ مضمون ہذا اسی مقالہ کے آخری حصے کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔ [اِدارہ] صدرِ اوّل کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کسی بھی حرف پر اس وقت تک قرآن مجید کا حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک کہ اس کا تواتر کے ساتھ منقول ہونا ثابت نہ ہوجائے۔یعنی اس کو اتنی بڑی جماعت نے روایت کیا ہو جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف عثمانیہ میں صرف ایسی روایات کو جگہ دی جو مطلوبہ معیارپرپوری اترتی تھیں اور ان تمام روایات کو قابل اعتناء نہ سمجھا جو اَخبار آحاد تھیں ، چاہے وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے ہی کیوں نہ مروی ہو، جیساکہ آیت رجم کامعاملہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے کے باوجود کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے حفظ کیا ہے،اسے مصحف میں جگہ نہیں دی گئی۔[فتح الباري:۱۲/۱۴۳] مصاحفِ عثمانیہ میں صرف ان روایات کو نقل کیا گیا جن پر لوگ متفق تھے کہ عرضۂ اخیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام پر پڑھااور اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھایا ہے،لیکن جب حضرت ابوبکر، عمر بن خطاب اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد کی غرض سے مختلف ممالک میں پھیل گئے تو اس کے ساتھ ایسے قرآنی حروف کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا گیاجو عرضۂ اخیرہ سے پہلے مروّج تھے یا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم سے قرآن کا حصہ نہ بنایاتھا۔ ٭ صدرِ اوّل کے قراء کرام نے صحابہ کرام کے حفظ وذکاوت پر ہی اعتماد کیااور اسی طرح قراءات سینہ بسینہ دیگر لوگوں تک منتقل ہوتی رہیں ،لیکن جب یہ معاملہ عوام تک پہنچااور ان کے پاس باقاعدہ کوئی ایسا معیار نہ ہونے کی وجہ
Flag Counter