Maktaba Wahhabi

362 - 933
بھی ہوگا،البتہ اگر یہ صحت سند سے تو ثابت ہوں ، لیکن قرآن مجید کے معیارِ ثبوت پر پورا نہ اتر سکیں تو ایسی قراءات کو قرآن مجید میں شامل نہ ہوسکنے کی وجہ سے نہ تو بطور قرآن تلاوت کیاجاسکتا ہے اور نہ نمازوں میں پڑھا جاسکتا ہے، البتہ بطور تعلیم وتعلّم کے انہیں اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اب ایسی قراءات شاذہ جو کہ صحت سند سے تو ثابت ہیں ، لیکن ان کے الفاظ بطور قرآن ثابت نہیں تو فقہاء میں ان بارے میں دو آراء ہوگئی ہیں کہ بطور حدیث ان سے استدلال کیا جائے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں اہل علم کی صحیح رائے یہ ہے کہ اگر اس قراءۃ کے الفاظ ثابت نہیں ہو سکے تو اس کا معنی تو بہرحال ثبوت کے عام معیار پر ثابت شدہ ہے، چنانچہ اسے وحی کی معنوی صورت یعنی حدیث پر محمول کرکے بطور حدیث اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح سند سے ثابت شدہ قراءات شاذہ سے تفسیرو فقہ میں آئمہ اسلاف نے نہایت استفادہ فرمایا ہے، جس سے اصحاب علم واقف ہیں ۔ہماری رائے کے مطابق جو اہل علم ’قراءاتِ شاذہ‘ سے استدلال کو صحیح نہیں سمجھتے، اس سے ان کی مراد وہ ’قراءات شاذہ‘ ہیں جوکہ فن حدیث کے معیار ِصحت پر پورا نہیں اترتیں اور اس بات سے اہل علم میں سے کو کوئی اختلاف نہیں ۔ اب آتے ہیں سوال کے آخری حصہ کی طرف کہ اختلافاتِ ’مترادفات‘ کے قبیل کی’قراءات شاذہ‘ سے معنی میں استدلال کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے، جبکہ ہمیں تسلیم ہے کہ وہ عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہوگئی تھیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ’قراءات شاذہ‘ جو کہ اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیری توضیحات سے متعلق تھیں ، لیکن بعد ازاں غلطی سے بطور قراءات رائج ہوگئیں تو ان سے استدلال کرنے میں توکوئی شبہ نہیں ، سوال صرف منسوخ التلاوۃ قراءات کے بارے میں ہے، تو ان کے بارے میں اہل علم کی توضیح یہ ہے کہ اول تو اس قسم کے الفاظ میں عموما مترادفات کا ذکر موجود ہے، جن کا ٹکراؤ کی صورت میں معنی پر کوئی خاص نہیں پڑتا ، ثانیا یہ کہ عرضۂ اخیرہ میں اس قسم کے کلمات کی تلاوت منسوخ کی گئی تھی، ناکہ ان کا معنوی مفہوم بھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر سال جبریل سے دور کرنا ہویا ’عرضہ اخیرہ‘ میں دو دفعہ دور کرنا، بہرحال یہ قراءت وتلاوت کے قبیل سے ہوتا تھا، چنانچہ ’عرض‘کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کی تلاوت ختم کی گئی ہے، ناکہ مفہوم بھی اور یہ بات قرآن کریم میں موجود نسخ کی صورتوں میں معروف بات ہے کہ کسی چیز کی تلاوت تو منسوخ ہوجائے البتہ اس کا حکم باقی رکھا جائے۔ اس کی مثال باتفاق امت آیت رجم کی ہے کہ اس کی تلاوت اب منسوخ ہوگئی ہے اور اس کا حکم قرآن میں باقی ہے۔ ’قراءات شاذہ‘ اور ان سے متعلقہ تمام سوالات ومباحث کے لیے مناسب ہوگا کہ کلِّیۃ الشریعہ ، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فاضل اور مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے سابق رکن مولانا محمد اسلم صدیق حفظہ اللہ کی تصنیف ِانیق ’قراءات شاذہ، شرعی حیثیت اور تفسیروفقہ پر ان کے اثرات‘کا ضرور مطالعہ کرلیا جائے، جو کہ شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی طرف سے مطبوع ایم فل کا ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ [جاری ہے۔۔] ٭٭٭
Flag Counter