Maktaba Wahhabi

361 - 933
مٹ گئی تھی اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کلمہ لمبی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا چھوٹی تاء سے، تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق اسے لمبی تاء سے لکھ دیا۔ اب جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’تابوت‘ کی تا کے علاوہ باقی تمام مقامات صحف ابی بکر اور رسمِ نبوی کے قبیل سے ہی ہیں ۔ صرف ’تابوت‘ کی تا قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق ہے۔ اب ’تابوت ‘ کی’تا‘ کے سلسلہ میں واضح ہونا چاہیے کہ ابتدائی ہدایت کے مطابق تو اجتہاد کرتے ہوئے اسے لغت قریش کے مطابق لکھ دیاگیا تھا،لیکن بعد ازاں بعض روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ اسی کمیٹی کو لفظ ’تابوت‘ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس باقاعدہ طور پر لمبی تاء کے ساتھ لکھا ہوا بھی مل گیاتھا،جس کی وجہ سے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ ’تابوت‘ میں اجتہاد کے ذریعے جو رسم الخط اختیار کیا گیا تھا،بعد ازاں اسے بھی روایات کی موافقت ملنے کی وجہ سے’ توقیفی‘ حیثیت مل گئی۔ اس قسم کی بعض دیگر تفصیلات ماہنامہ رشد’ قراءات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ موصوف نے اس قسم کے تمام اشکالات کو رفع کیا ہے اور ان روایات کی تخریج بھی کردی ہے ، جن میں تابوت کی’تا‘ بعض دیگر صحابہ سے مل گئی تھی۔ اس ضمن میں تفصیلی دلائل کے شائقین کو جناب حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے ایم فل کی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘، مطبوع شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے کافی سارے سوالات واشکالات رفع ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ سوال نمبر۳۷: قراءات شاذہ کاکیا حکم ہے اور ان کو’قراء ات‘کیوں کہا جاتا ہے، جبکہ یہ قرآن مجید نہیں ؟ نیز یہ بھی فرمائیے کہ اختلافاتِ ’مترادفات‘ کے قبیل کی’قراءات شاذہ‘ سے معنی میں استدلال کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے، جبکہ ہمیں تسلیم ہے کہ وہ عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہوگئی تھیں ؟ جواب: ’قراءات شاذہ‘ کے بارے میں کسی بحث سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا معنی کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی ایسی روایات جو بطور قرآن نقل تو کی گئی ہیں ، لیکن بعد ازاں قرآن مجید کے ثبوت کے ضابطے پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے وہ بطور قرآن قبول نہیں کی جاسکیں تو انہیں ’قراءات شاذہ‘کہاجائے گا۔ بعض علمائے قراءات کے ہاں غیرثابت شدہ قراءات کو بھی قراءات شاذہ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ بہرحال ’قراءاتِ شاذہ‘ کو ’قراءۃ‘ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ بطورِ قرآن نقل ہوتیں ہیں اور سوال نمبر ۴ اور ۷ میں گذر چکا ہے کہ لفظ ’قراءۃ‘ اہل علم کے ہاں قرآن کی ’روایت‘ کے لیے مستعمل ہے،چنانچہ قراءات شاذہ ہوں یاقراءات ضعیفہ، یہ بنیادی طور پر قرآن مجید تو نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو بطور قرآن کے نقل کیا گیا ہے، اس لیے انہیں ’قراء ات‘ کہتے ہیں ۔یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح ضعیف اور موضوع روایت کو ہم ضعیف وموضوع حدیث کہہ دیتے ہیں ، کیونکہ ان کی روایت بطور حدیث کی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ’قراءات شاذہ‘کو قراءات اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ قرآن مجید کے طور پر نقل ہوئی ہیں ، اگرچہ نفس الامر میں بطور قرآن ثابت نہیں ہوسکیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ قراءات شاذہ کا حکم کیاہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ قراءات شاذہ کی دو قسمیں ہیں : اگر یہ صحت سند سے ثابت نہ ہوں تومحدثین نے جو مقام ضعیف احادیث کا مقرر کیا ہے، وہی مقام قراءات شاذہ کا
Flag Counter