قاری محمد ابراہیم میر محمدی٭٭ مترجم: قاری مصطفی راسخ ٭ بین السورتین تکبیرات ....تحقیقی جائزہ زیر نظر مضمون شیخنا شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی غیر مطبوع عربی تصنیف المقنع في التکبیر عند الختم من طریق التیسیر والحرزسے ماخوذ ہے۔ مصنف نے اصل کتاب دس فصول اور ایک خاتمہ پر ترتیب دی ہے، لیکن ہم مکمل کتاب کے بجائے کتاب کا صرف ابتدائی نصف حصہ قارئین رشد کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ، جبکہ آخری آدھے حصے میں پیش کردہ مباحث چونکہ علم قراءات کی عملی تطبیقات سے تعلق رکھتی ہیں ، چنانچہ اختصار کی غرض سے انہیں ہم شائع نہیں کررہے۔ فاضل مؤلف نے اپنی اصل کتاب کے حواشی میں کتاب میں پیش کیے گئے تمام رجال کے تراجم اور مختلف دعاوی کے بیان میں اَسانید کو بھی مفصلا ذکر کیا ہے، لیکن اختصار کی غرض سے ہم نے انہیں بھی شامل تحریر نہیں کیا۔جو حضرات ان تمام اُمور کی مراجعت کا شوق رکھتے ہوں وہ اصل کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔ [ ادارہ] حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورجلیل القدر تابعین کرام نے تکبیرات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے طور پر روایت کیاہے۔ پھر یہ عام ہوگئی اور اتنی مشہور ہوئی کہ تواتر کی حدتک جاپہنچی۔ نیز اس پر تمام شہروں کے علماء نے عمل کیاہے اور یہ سنت متواترہ اپنے وجود کے ثبوت میں مزید کسی دلیل کی محتاج نہیں رہی۔ اسلاف کامسلسل عمل یہ چلا آرہا ہے کہ وہ سورۃ والضحٰی پڑھتے ہیں تو والضّحٰی کے شروع سے لے کر سورۃ الناس کے آخر تک ہر سورۃ کے اختتام پر تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہیں ۔[سنن القراء ومناہج المجوّدین:۲۰۹] اختتام قرآن کے موقع پر تکبیر کہنا سنت ہے۔ خواہ قاری نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ تلاوت کررہا ہو۔تکبیر ایسی سنت ہے جو لوگوں میں شائع وذائع رہی، تواتر سے منقول ہوئی اور اس کو تلقّی بالقبول حاصل ہے۔ اس کے ثبوت میں بہت ساری مرفوع اور موقوف اَحادیث وارد ہوئی ہیں ، جن کا بیان ان شاء اللہ آئندہ آئے گا۔ [ تقریب النشر: ص۱۹۱] لفظ تکبیرکَبَّرَ یُکَبِّرُ کامصدر ہے، جس کا معنی ہے کہ اللہ ہرشے سے بڑا ہے۔ [ لطائف الإشارات: ۱/۳۱۷ ] تکبیرات سے متعلقہ متعدد علمی مباحث کو ہم چھ عنوانات کے تحت بیان کریں گے: |