اس سے دوسری روایت میں ادراج لازم نہیں آتا۔ نیز اس اختلاف کی انتہا یہیں تک تو ہے کہ بہ نسبت دوسری روایت کے تفسیر والی حدیث میں کچھ زیادتی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہے۔‘‘ [عنایاتِ رحمانی: ۳/۴۸۵] موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’ہم نے جو روایات، شواہد اورتوابع کے طور پر بیان کی ہیں ، وہ سب اس حدیث کی قوت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ یہ حدیث ترقی کرکے ضعیف ہونے کے درجہ سے نکل گئی ہے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک روایت دوسری کو تقویت دے رہی ہے اور پہلی روایت کے لیے تائید کا باعث ہے۔ حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ذریعہ امام اعمش رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ شیوخ اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ قرآن کریم کے ختم کرلینے کے بعد اس کے شروع سے بھی چند آیات پڑھ لیں ۔یہ روایت واضح دلیل ہے اس پر کہ اس بارے میں سلف کا مذہب اور قراء کرام کا پسند کیاہوا عمل بلاشک صحیح ہے۔ ‘‘[عنایاتِ رحمانی: ۳/۴۸۵] نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس کو حسن فرمایا ہے اوراس عمل کو سنت قرار دیا ہے۔ اس سے بھی اس کے ثبوت کی تائید ہوتی ہے۔ [عنایاتِ رحمانی: ۳/۴۸۱] رہی یہ بات کہ امام احمد رحمہ اللہ سے ان کے شاگرد ابوطالب رحمہ اللہ نے پوچھا کہ کیا قاری﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾پڑھنے کے بعد سورۃ البقرہ کی ابتداء سے بھی کچھ پڑھے؟تو انہوں نے فرمایا:نہ پڑھے۔ ابو طالب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گویا امام موصوف رحمہ اللہ نے ختم قرآن کو کسی اور حصہ کی قراءۃ کے ساتھ ملانے کو پسند نہیں کیا۔ تو اس سلسلہ میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عدم پسندیدگی بعض وجوہ سے کی ہو گی، جن میں سے دو وجوہ یہ ہوسکتی ہیں : رحمہ اللہ انہوں نے عدم پسندیدگی اس لئے فرمائی کہ کوئی اس مستحب عمل کو لازم نہ سمجھ لے۔ ۲۔ ممکن ہے کہ اس بارے میں موصوف کو کوئی اثر نہ ملا ہو، جس کو وہ اختیار کرلیتے۔ [عنایاتِ رحمانی: ۳/۴۸۹] ٭٭٭ قارئین تصحیح فرمالیں قراءات نمبر(حصہ اوّل) کے صفحہ نمبر ۳۱۷ پر ڈاکٹرعبدالعزیز القاری حفظہ اللہ کے مضمون: ’قراءات قرآنیہ میں اختلاف کی حکمتیں اور فوائد‘ میں تقریباً آدھا صفحہ کی عبارت غلطی سے حذف ہوگئی، چنانچہ قارئین مذکورہ صفحہ کی آٹھویں سطر کے بعد ذیل کی عبارت کا اضافہ کرلیں : ’’۳) تبدیلی لفظ سے تبدیلی معنی بھی ہو، لیکن ایک اعتبار سے معنی میں تضاد نہیں ہوتا،مثلا ً وظَنُّوا أنَّھُمْ قَد کُذِبُوا میں کُذِبُوْا کو ذال کی تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ پڑھا گیاہے۔ تشدید کے ساتھ پڑھنے کا معنی یہ ہوگا کہ رسولوں نے اس بات کایقین کرلیاکہ ان کی قوم نے انہیں جھٹلا دیا، جبکہ تخفیف والی قراءت کا معنی ہوگا کہ قوم والوں نے خیال کیاکہ نبیوں کایہ کہنا کہ اگر ہم ان کی نبوت کوجھٹلادیں گے تو ہم عذاب سے دوچار کئے جائیں گے، جھوٹ پرمبنی ہے۔ پہلی قراءت میں ظن بمعنی یقین ہوگا، اس صورت میں ظَنُّوْا میں جمع کی ضمیر رسولوں کے لئے اور کذبوا کی ضمیر جمع قوم والوں کے لئے ہوگی اور دوسری قراءت ، جس میں ظن بمعنی یقین نہیں ، میں پہلی ضمیر سے مراد قوم اور دوسری سے مراد رسول ہیں ۔ (حجۃ القراءات: ۷۷، الکشف: ۱/۲۵،۲۶)‘‘ |