Maktaba Wahhabi

360 - 933
شامل اشاعت ہے، جب کہ عثمانی مصاحف میں رسم الخط کے ضمن میں چند ایک اختلافات موجود تھے، اس پر تفصیلا بحث پچھلے شمارہ میں شائع شدہ قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے مضمون کے ذیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سوال نمبر۳۶: اگر رسم عثمانی اور اس میں موجود اختلاف توقیفی ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد فاکتبوہ بلغۃ قریش کا کیا معنی ہے؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم عثمانی قریشی انداز ِ کتابت پر مشتمل ہے۔ جواب: اوپر ذکر کردہ جواب سے یہ سوال بدیہی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک متفقہ مصحف کی تیاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، جن کے کام پر بعد ازاں بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اتفاق کیا،اس کمیٹی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی تھی، جو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ اگر آپ کا کسی بھی شے میں باہمی اختلاف ہوجائے، تو اس صورت میں اس شے کو آپ لغت قریش کے مطابق لکھیں ۔ اگر رسم الخط کااختلاف توقیفی ہوتاتو انہیں یوں کہناچاہئے تھا کہ اختلاف کی صورت میں تم ماضی میں موجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رسم میں سے اسے تالاش کرنا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کے اس دعوی ہی میں اس بات کا جواب موجود ہے کہ اگر رسم عثمانی کی اَساس صحف ابی بکر اور کتابت نبوی کو نہیں بنایا گیا تو اختلاف کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ سیدھی بات ہے کہ جس طرح سے کلمات کو لکھنے سے قرآن کا تعین ممکن ہوتا ویسے لکھ لینا چاہیے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ تاریخی روایات اس بارے میں بالکل قطعی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام سے قبل صحف ابی بکر کو منگوایا تھا اور کام کی اساس انہیں کو بنایا تھا۔ اگر لغت قریش میں قرآن کا رسم تیار کرنا اس کمیٹی کاکام ہوتا تو کبھی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے صحف ابی بکر کو نہ منگواتے، کیونکہ اگر لغت قریش پر لکھنا قرآن مجید کا کوئی اجتہادی انداز ہوتا تو صحف حفصہ کااس میں سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ جملہ میں یہ وضاحت موجو دہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہارا اختلاف نہ بھی ہو تو پھر بھی تم لغت قریش کے مطابق لکھتے چلو، بلکہ فرمایا کہ اگر کسی بھی جگہ پر کسی پہلوسے تمہارے مابین اختلاف پیداہوجائے کہ اس جگہ اس کا رسم کیا اختیار کرناہے تو ایسے اختلاف کی صورت میں تم لغت قریش کو معیار بنانا۔اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اختلاف کے بغیر لکھنے کی قرآن کو لغت قریش کے مطابق لکھنے کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہدایت نہیں فرمائی تھی۔ اب رہا یہ سوال کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ارشاد کیوں فرمایا تھا؟ تو ہم یہ بات ذکر کرنا چاہیں گے کہ اس کا سبب تاریخی روایات میں بالصراحت موجود ہے کہ صحف ابی بکر کے اندر بعض چیزیں مرور ِزمانہ کے ساتھ مٹ گئیں تھیں یا ان کی سیاہی مدھم پڑ گئی تھی، چنانچہ اس کمیٹی میں بعض کلمات میں اس قبیل سے اختلاف ہوا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اجتہادی ضابطے کے طور پر فرما دیا کہ ایسے اختلاف کی صورت میں اگر تمہیں پہلے سے موجود کوئی رسم نہیں ملتا، توقرآن مجید چونکہ بنیادی طور پر لغت قریش کے مطابق نازل ہوا تھا اور قریشی لغت کو یک گونہ دیگر لغات پر جو فوقیت دی گئی ہے، اس اعتبار سے ایسے اختلافی مقامات پرقریش کے طریقہ کتابت کو اختیار کرلینا۔ تاریخی روایات میں وضاحتاً یہ بھی موجود ہے کہ ایسا اختلاف صرف ایک کلمہ میں سامنے آیا تھا اور وہ کلمہ ’تابوت‘ کی’تا‘ ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے لکھا ہے کہ صحف ِابی بکر میں تابوت کی دوسری تاء بوجوہ
Flag Counter