نہیں ۔ اگر موجود ہو تو اس کو بطور قرآن قبول کرلیاجاتاہے، ورنہ نہیں ۔ عین یہی تدبیر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد سلطنت میں قرآن مجید کے ضمن میں پیدہ شدہ فتنہ واختلاف کو ختم کرنے کے لیے کی تھی۔ اسی وجہ سے بعد ازاں زمانوں میں ہمیشہ کے لیے یہ ضابطہ طے کردیا گیا کہ قیامت تک اگر کبھی قرآن کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہو تو اختلافات کو حل کرنے کے لیے اورکسی بھی شے کو بطور قرآن قبول کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف سے موافقت ضروری ہے۔ باقی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو رسم الخط پیش فرمایاتھا،اس کے بارے میں واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ رسم انہوں نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ فرمایا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کو املاء کروا دیا تھا، جس کے دو مقاصد تھے: ۱۔ قرآن مجید کی جو روایت الفاظ کی صورت میں بعد ازاں کی جائے تو چونکہ یہ ایک مشکل کام تھا، چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے قرآن مجید کو لکھوا دیا گیا، تاکہ کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے لفظی اختلاف کی صورت میں کتابت کے اس ’معیار‘ سے مدد لی جاسکے۔ ۲۔ امت میں قرآن اور اس کے نقش کے بارے میں کسی وقت بھی پیدا ہونے والے اختلاف کا قبل ازیں ایسا اہتمام کرلیا جائے کہ اس اختلاف کے حل کے لیے خارج میں پہلے سے ایک ایسا معین ’معیار‘ موجود ہو، جو صحیح وغلط کے مابین امتیاز کا کام دے۔ اب ہم آتے ہیں سوال مذکورکے جواب کی طرف کہ کیارسم عثمانی میں اختلاف موجود ہے؟ اس حوالے سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ رسم، چونکہ قرآن مجید کی روایت اور قراءات یا نفس قرآن کی حفاظت کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں املاء کروا دیا تھا، تو اب چونکہ قرآن مجید میں متعدد لہجوں اور اسلوب ِبلاغت کا بھی اختلاف روزِ اَوّل سے موجود تھا، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رسم صحابہ کو لکھوایا تھا، اس رسم میں بعض ایسے کلمات،جو متعدد قراءات کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے تھے، مثلاً حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے بعض اختلافات، کو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اندازوں سے لکھوا دیا تھا۔ بعدازاں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے اس ’معیار‘ کو پیش فرمایاتو اس معیار کو پیش کرتے ہوئے جو مصاحف مختلف شہروں کی طرف روانہ فرمائے، ان کے اندر بھی مختلف فیہ کلمات،جو تقریباً پچاس یاساٹھ کے قریب ہیں ، کو پھیلا دیا، مثلاً وہ مصحف جو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ فرمایا تھا، اس میں سورۃ توبہ کے اندر ’’تجری تحتھا الانھار‘‘ میں ’’تحتھا‘‘ سے قبل ’مِنْ‘ کا اضافہ کردیا۔اس طرح مصحف شام اور مصحف مدینہ کے اندر ’’ووصّٰی‘‘کو ’’وأوصی‘‘ لکھوا دیاگیا، تاکہ دونوں قراءات رسم الخط سے نکل سکیں ۔ المختصر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ کتابت اور اس میں موجود اختلافات کوہی برقرار رکھتے ہوئے مختلف مصاحف میں منقولہ اختلاف کو اُسی طرح لکھوایا تھا، جس طرح صحف ِابی بکر میں موجود تھا۔ واضح رہے کہ متنوع قراءات کی مثل رسم الخط کا یہ سارا اختلاف بھی توقیفی اور ثابت عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ رسم عثمانی توقیفی ہے یا اجتہادی؟ اس سلسلہ میں ایک مضمون تورشد ’قراءات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کے قلم سے شائع کیا جا چکا ہے اور دوسرا زیر نظر شمارے میں حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے رشحات قلم سے |