تعلق اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ دیگر امور سے دلچسپی بالکل کھو بیٹھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا حافظہ صحیح ہونے کے باوجود دیگر اُمور میں کام نہیں کرتا، جیسے ایک شخص جو ہر وقت قرآن اور اس کی قراءات کے علوم میں مشغول رہے، بسا اوقات غالب یا اقبال کے شاعرانہ ذوق سے عدم دلچسپی کی بنا پر اسے اردو کا نہ کوئی شعر سمجھ آتا ہے اور نہ دماغ میں ٹکتا ہے۔ اس ضمن میں ان اہل علم اور مجتہدین کی مثال بھی قرین قیاس ہے جو ہر وقت دین میں غور وفکر کے عادی ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے حفظ ِحدیث اور دیگر دنیاوی امور میں ان کا حافظہ متاثر ہوجاتا ہے، حالانکہ ان کا حافظہ عمومی طور پر کمزور نہیں ہوتا۔ آئمہ قراءات میں سے جن بعض حضرات کی باعتبار حافظہ تضعیف کی گئی ہے، ان کے بارے میں واضح رہے کہ بسا اوقات اِس جرح کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اصل ہی کے اعتبار سے ضعیف حافظہ کے مالک ہوتے ہیں یا بعض اوقات قرآن اور علوم قرآن سے سدا بہار تعلق کی وجہ سے دیگر علوم میں ان کا حافظ متاثر ہوجاتا ہے۔ بہرحال صورت جو بھی ہو ان کا وہ حافظ قرآن کریم کے ضمن میں مقبول بلکہ اعلی درجہ کا ہوتا ہے، برخلاف حدیث ودیگر دنیاوی امور کے، وہ اس میں عام طور پر بات کو بھول جاتے ہیں ۔ سوال نمبر۳۵: رسم عثمانی کو صحت ِقراءۃ کی ایک لازمی شرط قرار دیاجاتاہے، لیکن مصاحف عثمانیہ باہمی طور خود مختلف ہیں کہ ان میں بعض مقام پر کچھ کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں ؟ اس پر کچھ تبصرہ کردیجیے۔ جواب: پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ رسم عثمانی کی جو نسبت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ہے وہ بنیادی طور پر مجازا ہے، ورنہ درحقیقت قرآن مجید کا رسم، جسے صحت ِقراءات کے لیے ایک لازمی شرط قرار دیا گیا ہے، یہ بنیادی طور پر وہ طریقۂ کتابت ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود املاء کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس متعدد صورتوں میں موجود رہا۔ یہی وجہ کہ علم الرسم کی جمیع کتب میں رسم عثمانی کی تعریف میں ماہرین فن نے بالاتفاق وضاحت کی ہے کہ عثمانی رسم الخط کے معنی یہ ہیں کہ قرآنی کلمات کوحذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر دور عثمانی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوچکا ہے اور جو تواتر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض وجوہات کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کتابت اور رسم الخط کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ایک جگہ اکٹھا کردیا اور حکومتی حفاظت میں لے لیا، تاکہ وہ طرز کتابت،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں لکھوا کر محفوظ کروا چکے تھے،غیرمحفوظ ہو کرضائع نہ جائے۔پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کے حوالے سے اختلافات ظہور پذیر ہوئے توان اختلافات کو حل کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُمت کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھوائے اس رسم کو، جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یکجا کرلیا تھا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوایا اورایک متحقیقی کمیٹی بناکردوبارہ نظرثانی کروا کر لوگوں کے لیے ایک ’معیار‘ کے طور پر قانونی طور پر نافذ کردیا، تاکہ آج کے بعد قرآن کے حوالے سے جو بھی اختلاف رونما ہو، اُس کو اِس ’معیاری رسم الخط‘ پر پیش کرکے دیکھ لیاجائے، اگر یہ رسم اس کو قبول کرے تو اس کوبطور قرآن قبول کرلیاجائے، ورنہ رد کردیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے مختلف حفاظ کے درمیان آج قرآن مجیدکی کسی آیت یا کلمے کے بارے میں جب اختلاف پیدا ہوجاتا ہے تو قرآن مجید کو کھول کر اس کی کتابت سے فیصلہ کرلیاجاتا ہے کہ قرآن مجید میں وہ چیز موجود ہے یا |