Maktaba Wahhabi

357 - 933
ہیں کہ قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ایک ایک لفظ کو ایک طالب علم یاد کرنے کے لیے بسا اوقات دو دو گھنٹوں میں بیسیوں دفعہ تکرار کے بعد یاد کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل حدیث کے حفظ کا حلقوں کی صورت میں کوئی اہتمام ہے اورنہ حدیث کو بطور الفاظ یاد کرنے کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جس طرح کہ قرآن مجید میں اہتمام کے ساتھ ایک معجزانہ صورت میں یہ موجود ہے۔ قرآن کریم کے طریقۂ ضبط کے حفظ ِحدیث سے فرق سمجھنے کے لیے اگر غور کیا جائے تو مشاہدہ یہ ہے کہ جن طلبہ کے حافظے کمزور ہیں ، جب وہ قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں تو حفظ کرتے وقت ان کو عام ذہین بچوں کے بالمقابل ۵۰ کے بجائے دو دو سو بار ایک آیت کو دہرانا پڑتا ہے اورعام طور پر قرآن کا نقش ان کے ذہن پر جب جاگزیں ہوتا ہے تو وہ نقش اس قدر دیرپا ہوتا ہے کہ تیز حافظے والے بچوں کے ذہن پر اِس کا اثر اس قدر قوی نہیں ہوتا۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو بچے قوی حافظے کی بنا پر جلد حفظ کرلیتے ہیں وہ عموما جلد بھول بھی جاتے ہیں ۔ عام طور پر وہ لوگ جومختلف انسانی قویٰ میں کسی نہ کسی پہلو سے محرومی رکھتے ہوں ، مثلاً نابینا حضرات یاوہ لوگ جو ذہنی طور پر کمزور ہوں ، بلکہ مدارس میں تو آج ایسے بچوں کو ہی حفظ کے لیے بھیجا جاتا ہے، یہ لوگ جب قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں تو ان کو حفظ کرنے میں چھ چھ ، آٹھ آٹھ سال کاعرصہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حفظ قرآن میں ان کی طبعی کمزوریاں یوں زائل ہوجاتی ہیں کہ شمار تکرار کی وجہ سے قلوب واذہان پر قرآن کریم کانقش زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ بس اسی مثال کو اگر سامنے رکھ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ ائمہ قراء میں سے وہ حضرات، جن پرباعتبارحافظہ بعض محدثین نے جرح کی ہے، وہ حدیث میں اپنے حافظے کے کمزور ہونے کے باوجود کس طرح قرآن اور قراءات قرآنیہ میں قوی ترین حافظہ کے مالک تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے قرآن مجیدکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ ایک ایک امام دن کے چوبیس چوبیس گھنٹوں میں اور زندگی کے پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ سالوں کے دورانیہ میں جس طرح ہزاروں بار قرآن کو دہرا چکا تھااور ان کی ہمہ وقت درس و تدریس میں مشغول تھا اس سے اس کے حافظے کی وہ کمزوری، جو حدیث وغیرہ میں تھی، قرآن مجید کے حفظ اور اس کو آگے منتقل کرنے میں زائل ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ آئمہ جرح وتعدیل نے اس قسم کے تمام آئمہ کے تراجم میں وضاحت کی ہے کہ یہ لوگ حدیث کے میدان میں ضعیف ہونے کے باوجود قرآن کے معاملہ میں ثقاہت اور امامت کے درجہ پر فائز تھے۔ ماہنامہ رشد ’قراءات نمبر‘ ۳ میں ہم اس موضوع پر ایک مستقل مضمون ہدیہ قارئین کریں گے۔ یاد رہے کہ محدثین کے ہاں فن حدیث میں سییٔ الحفظ راوی کی دو قسمیں ہیں : کچھ رواۃ کا حافظہ پیدائشی طور پر کمزور ہوتا ہے او رکچھ کا مختلف وجوہ کی بنا پر بعد میں ضعیف ہوجاتا ہے۔ پہلے کو سوء الحفظ اصلی اور دوسرے کو سوء الحفظ طاری کہا جاتا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے ضمن میں آئمہ قراءات میں موجود دونوں قسم کی حافظے کی کمزوری بوجوہ زائل ہوگئی تھی۔ آئمہ قراءات کے حوالے سے حافظے کی ایسی کمزوری جو پیدائشی وحقیقی ہو اس پر تو اوپر بحث ہوچکی، رہی حافظے کی ایسی کمزوری جو اصلی نہ ہو بلکہ بعد میں مختلف وجوہ سے طاری ہوجائے، تو اہل علم کے ہاں اس کی بعض صورتیں یہ بھی ہیں کہ بسا اوقات کسی شخص کا ایک علم سے اعتناء اور
Flag Counter