سوال نمبر۳۴: بعض آئمہ قراءات پر محدثین کرام نے جرح کی ہے، کیا اس جرح کے باوجود وہ ایک مقدس علم نقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، جبکہ حدیث کے معاملے میں ان کی شخصیت ثابت نہیں ؟ جواب: یہ سوال بنیادی طور پر ایک مغالطے کی وجہ سے پیداہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ،جو علم الحدیث سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں ،وہ علم الحدیث کی تحقیق میں جب افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں توبسا اوقات اس فرق کو بھول جاتے ہیں کہ اہل علم نے مختلف علوم کی روایت اور خود ان علوم کے طریقۂ تحقیق میں فرق رکھاہے، مثلاً روایت ’سنت‘ کی بھی ہوتی ہے، اسرائیلیات کی بھی ہوتی ہے، سیرت وتاریخ کی بھی ہوتی ہے، تفسیر کی بھی ہوتی ہے اور اسی طرح قرآن کریم کی بھی۔ ہرایک فن کے حاملین اور ماہرین بھی مختلف ہیں ۔ اگر تفسیر کی تحقیق مقصود ہو تویہ محدثین کے بجائے مفسرین کا موضوع ِبحث ہے اور اس کو اصول ِحدیث کے بجائے فن تفسیر کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ اگر تفسیر ی روایات صحابہ و تابعین کے اقوال پر مشتمل ہوں یا شانِ نزول سے متعلق روایات ہوں اور ان کی تحقیق کا موضوع زیربحث ہو تواس کو اصولِ تفسیر میں طے شدہ تحقیق ِروایت کے اُصولوں پر پرکھا جائے گا۔ یہ مفسرین کرام اور نصاب تفسیر کا موضوع ہے۔ یہی حال تاریخی روایات کے پرکھنے کا ہے کہ اگر تاریخ کی روایت زیر تحقیق ہو تو یہ مورخین کا موضوع ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ’سنت‘ کے پرکھنے کے حوالے سے جو نصاب محدثین کے ہاں اُصول حدیث کے نام سے مدوّن صورت میں موجود ہے، وہ حدیث کو پرکھنے کا نصاب ہے، لیکن اُصول حدیث حدیث کو پرکھنے کے اصول تو ہیں ، لیکن ان کے ذریعہ سے تفسیر ،تاریخ ،سیرت ، إسرائیلیات یاقرآن مجیدکو پرکھناغیر علمی طریق کار ہے۔ ان موضوعات پر مفصل بحث ان کے اپنے اپنے نصابات میں موجود ہے۔ سردست یہاں قرآن مجید کی روایت کے فرق کے حوالے سے جو سوال کیاگیا ہے، اس کے ضمن میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ قرآن مجید کے طریقۂ روایت کا سنت نبوی کے طریقۂ روایت سے فرق ہے۔ ان دونوں کے طریقہ روایت کا فرق جاننے کے لیے آج کے دور میں محض قرآن مجیدکے طریقۂ حفظ کو ہی اگر دیکھ لیاجائے تو اندازہ ہوجائے کا دونوں میں ’ضبط ِشے‘ کے معیار کا کس قدر فرق ہے۔ چونکہ حدیث تحمل واداء کے ذریعے وجود میں آتی ہے کہ ایک آدمی بیان کرنے والا ہوتاہے، دوسرا آدمی اس کوسن کر اخذ کرتا ہے اور پھر اس کو آگے بیان کرتا ہے، تو روایت تحمل و اَدا کے طریق سے گزر کر سامنے آتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے تحمل واداء، جسے اصطلاح قراء میں تلقِّی وتلاوت کہتے ہیں ، کا طریقہ حدیث سے انتہائی مختلف ہے۔ حدیث میں چونکہ اصل شے مراد ہے اس لیے اس میں روایت بالمعنی کی گنجائش ہے، لیکن قرآن مجید کے الفاظ وحی ہیں ، چنانچہ اس میں روایت بعینہٖ الفاظ کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ اب دنیا میں روایت باللفظ چونکہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن صورتوں میں سے خیال کی جاتی ہے، چنانچہ مشہور فلسفی وشاعر اقبال کے بقول ان کے بعض فلسفی ساتھیوں نے اسی وجہ سے قرآن کی محفوظ روایت پر شک کیا تھا، لیکن اگر اقبال کے وہ دوست آج کل کے مدرسوں میں شعبہ تحفیظ القرآن اور حلقات تحفیظ کا جائزہ لے لیتے، تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ حفاظت عملی طور پر پچھلی چودہ صدیوں میں کس طرح وجود میں آئی ہے۔ قرآن مجید کے حفظ کا ایک خاص انداز ہے، جس میں ایک آیت کو حفظ کرکے، آگے منتقل کرنے کے لیے استاد اور شاگرد کا جو اسلوب ہوتا ہے، وہ حدیث یا دنیا میں کسی علم کے طریقۂ روایت میں دیکھانا ممکن نہیں ۔ ہم دیکھتے |