سوال نمبر۳۳ کیاقرآن میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے اختلاف قراءات کاعلم حاصل ہوتا ہو؟ جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے اس سلسلہ میں اہل علم کے مابین موجود ایک اور اختلاف کی نشاندہی ضروری ہے۔ علماء میں اس مسئلے میں اختلاف موجود ہے کہ احادیث نبویہ بنیادی طور پر قرآن مجید کے کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی میں داخل ہوتی ہیں یا بطور وحی وہ محض استقلالی حیثیت رکھتی ہیں ، جن کا قرآن کی نسبت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس بارے میں اہل علم کے دو قول عرصہ قدیم سے چلتے ہیں : ۱۔عام طور پر جو قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، وہ یہ ہے کہ بطور وحی تو حدیث کی حیثیت بھی مثل قرآن استقلالی ہے، البتہ دونوں وحیوں کا باہمی تعلق اجمال وبیان کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور جملہ ہے کہ نَزَلَ القرآنُ جُملۃً حَتّٰی بیَّنَہ الرسولُ یعنی قرآن اجمال کے ساتھ اترا اور حدیث اس کی تبیین کے ساتھ اتری۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تو یہ تھا کہ وحی کی دونوں قسموں کو امت تک پہنچائیں ، لیکن اس کے بعد ان تبیین قرآن کے ضمن میں بنیادی کام قرآن مجید پر اضافہ کرنا نہیں تھا، بلکہ محض قرآن مجیدکی تبیین کرناتھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن مجید کی کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توضیحا ارشاد فرمایا ہے۔ ۲۔ دوسرے علماء پہلے نظریہ سے اس پہلو سے تو متفق ہیں کہ رسول اللہ کی لائی ہوئی دونوں قسم کی وحی ایک حیثیت رکھتی ہیں ، البتہ ان دونوں وحیوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس کے بارے میں وہ خاموش ہیں ۔ ہماری سمجھ یہ ہے کہ ان اہل علم کی نظراس بات پر ہے کہ وحی بصورت قرآن پہنچے یا بصورت حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی ابدی ہدایت ہیں ، چنانچہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ان دونوں وحیوں کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس قسم کی مباحث سے استخفاف وانکار حدیث کے رستے وا ہوتے ہیں ، چنانچہ احادیث میں موجود کوئی چیز قرآن مجید پر بظاہر اضافہ کررہی ہے یا نہیں ، ہمارے حق میں وہ اللہ کی ابدی اور ایک جیسے ہدایت ہے۔ اب متقدمین میں امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیرکو لیا جائے یا امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر ائمہ کی تعبیر کو، جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ألا إنی أوتیتُ القرآنَ و مثلَہ معہ‘‘ [مسند احمد: ۱۷۲۱۳] کہ میرے لیے قرآن کی مثل ایک مستقل وحی مزید دی گئی ہے، امر واقعہ میں نفس مسئلہ پردونوں سے فرق نہیں پڑتا، لیکن نفس مسئلہ کی حقیقت کے اعتبار سے امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیر چونکہ دیگر اہل علم سے علمی اعتبار سے زیادہ واضح ہے کہ اس میں ایک مزید سوال کا جواب بھی دیا گیاہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم جو کہ وحی کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سے مستقلاً ہمیں دیا ہے، اس کا بنیادی طور پر قرآن سے تعلق کیاہے؟ اس حوالے سے ہم اگر امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف کودیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ احادیث میں اختلاف قراءات کا جو ذکر آیا ہے، وہ قرآن مجید کی کسی نہ کسی اصولی حکم کے تحت پہلے سے قرآن میں موجود تھا، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں سمجھ کر ہمارے سامنے پیش کردیا، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں ﴿یُرِیدُ اللّٰہ بِکُمُ الیُسْر﴾ [البقرۃ:۱۸۵] اور ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ﴾ [الحج:۷۸] جیسی آیات کے ضمن میں أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کا کوئی نہ کوئی پیغام موجود ہے۔ |