ہیں ، تو بالعموم وہ ممالک جو افریقہ یا مغرب کے ممالک کہلاتے ہیں ، جن میں اندلس، لیبیا، الجزائر اور مراکش وغیرہ شامل ہیں ، ان ملکوں میں چونکہ فقہی طور پر فقہ مالکی کا رواج زیادہ ہے، چنانچہ عموما روایت ورش پڑھی جاتی ہے اور بعض ممالک میں روایت ورش کے ساتھ ساتھ روایت قالون پڑھنے کا بھی اہتمام ہے۔ مزید برآں چونکہ یہ ایک الگ واقعاتی صورتحال ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی ممالک میں موجود ہے، چنانچہ روایت حفص کو عملاًروایت ورش سے زیادہ قبولیت عامہ حاصل ہوئی، لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں روایت ورش صرف چند علاقوں میں رائج ہے۔ یہ بڑی مغالطہ امیز بات ہے کیونکہ اہل نظر جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں فقہ مالکی کو بھی فقہ حنفی کی طرح عروج حاصل ہے اور ان تمام ممالک میں جہاں فقہ مالکی موجود ہے وہاں روایت ورش اور روایت قالون ہی رائج ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ کی امام نافع رحمہ اللہ سے کیسی عقیدت تھی اس کی نوعیت جاننے کے لیے یہ واقعہ سامنے رہنا چاہئے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے ’بسم اللہ‘ کوجہراً پڑھنے کے بارے میں سوال کیا، تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تک مدینہ میں یہ موجود ہیں اور ان کا اشارہ امام نافع رحمہ اللہ کی طرف تھا، تب تک قرآن کے مسائل میں میری بجائے ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہاں بطورِ علم اس بات کو ذکر کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ ’سبعۃ أحرف‘‘ کے ضمن میں جو اختلاف آئمہ قران کی وساطت سے بطریق تواتر امت تک منتقل ہوا ہے، اس میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ آئمہ کی روایات میں باہمی طور پر سب سے زیادہ اختلاف امام ورش رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں ہے اور یہی دو روایات عالم اسلام کے سواد اعظم میں رائج ہیں ، چنانچہ اختلاف قراءات کے سلسلہ میں جو لوگ تشویش محسوس کرتے ہیں انہیں دیگر روایات سے قطع نظر اس پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھ لینا چاہیے۔ سوال نمبر۳۲: اگرتنوع قراءات سے مراد لغات یا لہجات کا اختلاف ہو توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں صرف اہل عرب کا خیال رکھا گیا ہے، ناکہ اقوام ِعالم کا، حالانکہ قرآن مجید پوری دنیا کے لیے نازل ہوا ہے ؟ جواب: قرآن مجید اور سنت قیامت تک کے لیے تمام آنے والے افرادا ورتمام قسم کی اقوام کے لیے راہنمائی اور رُشد کا ذریعہ ہے، لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ قرآن مجید کے اندر مخصوص طبقات یا مخصوص اقوام کے لیے کوئی خاص ہدایات موجود نہیں ہیں ۔ اس حوالے سے قرآن چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے قرآن مجید میں اگر عربی زبان کے حوالے سے کوئی مشکل کا احساس پایا جائے اور اس مشکل کے اعتبار سے کچھ سہولت دے دی جائے، تو اس حوالے سے خاص اہل عرب کے لیے ہی اس مشقت کا ازالہ کیا جائے گا۔ اسی طرح مختلف قراءات کا نزول چونکہ مختلف عربی لغات اور عربی لہجات کے پیش نظر ہوا ہے اور یہ عربی لہجات اہل عرب کے اندر ہی بنیادی طور پر بولے جاتے تھے، اہل عجم کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اہل عرب کے اندر ہی یہ مشکل تھی کہ ایک لہجے کا پابند اگر دوسرے لہجے والے کو کیا جاتا، تو اس کے لیے اس لہجے کو اختیار کرنا مشکل سمجھا جاتا تھا، چنانچہ اس چیز کی اہل عرب کے لیے گنجائش دے دی گئی۔ اس پہلو سے قرآن مجیداگرچہ قیامت تک کے لوگوں کے لیے رہنمائی کی بنیاد ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں عربیت کے ضمن میں جو مشکلیں ہیں اور ان مشکلوں کے حوالے سے جو رخصتیں دی گئی ہیں ، ان کا تعلق صرف اہل عرب سے ہے۔ |