میں پذیرائی حاصل ہوئی کہ خلافت کے مختلف ادوار میں آنے والے خلفاء عموما مذہب حنفی اور مذہب مالکی سے عقیدت رکھتے تھے اور جیسا کہ ضابطہ معروف ہے کہ النَاس علی دین ملوکہم تو اسی وجہ سے گذشتہ صدیوں میں انہی دو فقہوں کو زیادہ انتشار حاصل ہوا، جوکہ آج تک برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین اہل علم کے موقف کے مطابق فقہ حنفی یا فقہ مالکی کی علمیت اپنی جگہ، لیکن سواد اعظم میں ان کی مقبولیت کی بنیاد پر دیگر فقہوں پر ان کی قطعا کوئی علمی وتحقیقی برتری نہیں ۔ واضح رہے کہ اگر کسی شے کی علمیت کے لیے اساس اسی قسم کے تاریخی اتار چڑھاؤ ہی کو تسلیم کرلیا جائے تو اکبر کے الحادی ’دین ِالٰہی‘کے جو اثرات برصغیر پاک وہند کے عوامی دھارے میں آج تک نظر آتے ہیں ان سب کو دین ماننا پڑے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کئی صدیوں سے امت میں چارفقہیں زیادہ معروف ہیں ، جن میں فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کا نام سامنے آتا ہے۔ بعض لوگ،جو اوپر ذکر کردہ اس قسم کے حقائق پر نظر نہیں رکھتے، اس بنیاد پر کہ اب امت میں یہی چار فقہیں عوامی طور پر رائج ہیں ، سطحی طور پرکہہ دیتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں دعوائے اجماع کے لیے صرف ان چارمذاہب فقہ کے اتفاق کو ہی پیش کرنا کافی ہے، حالانکہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ امت میں عوامی طور پر رائج چار قراءات میں پیش شدہ اختلافات تو اجماعی ہیں ، جبکہ باقی سولہ روایات میں موجود دیگر اختلافات، جن کا علم صرف اہل علم میں موجود ہے، ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں ۔ یاد رہے کہ کسی مسئلہ میں اجماع یا تعامل امت کے تعین کے بارے میں اصل معیاراہل علم کا اتفاق ہے۔ عوام الناس تو دینی نظریات میں اہل علم کے تابع ہوتے ہیں ۔ اس لیے جس طرح یہ دعوی صحیح نہیں کہ مذاہب اربعہ کے اتفاق یا دنیا میں ان کے عملی طور رائج ہونے کا نام تعامل ِامت ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ دنیا میں رائج چار قراءات ہی صرف تعامل ِامت سے ثابت ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح تعامل ِامت چار قراءات کو تو تسلیم کرتا ہے اسی طرح چونکہ اجماع و تعامل کی اصل اساس علماء کا اتفاق ہے، چنانچہ دیگر سولہ روایات بھی تعامل اُمت سے ثابت ہیں ۔ یہی معاملہ فقہی مذاہب کا بھی سمجھنا چاہیے۔ الغرض فقہی اختلافات کے ضمن میں اجماع یا تعامل امت کے سلسلہ میں اس قسم کی آراء کہ مذاہب اَربعہ کے اتفاق کا نام اجماع ہوتا ہے،سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان چار فقہوں سے کس قدر عقیدت پائی جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ چونکہ آج عالم اسلام کے عام ممالک میں دو فقہیں زیادہ رائج ہیں ، چنانچہ عالم اسلام کے مشرقی علاقوں میں فقہ حنفی کو اور مغربی ممالک میں فقہ مالکی کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسری فقہ کو حاصل نہیں ہوسکا۔ صورتحال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قراءات میں استاد چونکہ امام عاصم کوفی رحمہ اللہ ہیں ، جن کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی روایت مشرقی ممالک میں رائج ہے، اسی لیے عالم اسلام کے مشرقی بلاک میں انہی حفص کی روایت یا بالفاظ دیگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قراءت زیادہ رائج ہوئی۔ دوسری طرف امام دار الہجرۃ امام مالک مدنی رحمہ اللہ کے تجویدو قراءات میں استاد امام نافع مدنی رحمہ اللہ ہیں ۔ امام نافع رحمہ اللہ نے جو انداز ِ تلاوت آگے نقل کیا ہے، وہ دو روایتوں کے ذریعے امت تک منتقل ہوا ہے: ایک امام ورش رحمہ اللہ کی روایت سے ہم تک پہنچا ہے اور دوسرا امام قالون رحمہ اللہ کی روایت سے۔یہ دونوں حضرات امام مالک رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے |