Maktaba Wahhabi

352 - 933
براعظم افریقہ کے جمیع ممالک میں اُن کے اتفاقی تعامل سے بطور قرآن رائج ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تعامل کے سلسلہ میں اگر امت تین چار تعاملوں میں بٹی ہو تو پھر صحیح تعامل کا تعین کیسے ہوگا؟ اس کا جواب ان دانشوروں کے ہاں بھی اگرچہ یہی ہے کہ یہ فیصلہ اہل علم کریں گے، تو اہل علم تو بلا اختلاف پچھلے سینکڑوں سالوں سے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ تعدد قراءات کا مسئلہ دین میں موجود ہے اور آج تک باقی ہے، تو پھر یہ لوگ اس بنیاد پر روایت حفص کے علاوہ دیگر مروجہ قراءات کیوں نہیں مانتے۔ ہمیں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے،جو متنوع قراءات کے سلسلہ میں اختلاف رائے رکھتا ہو۔ البتہ اگر تعامل ِ امت کے سلسلہ میں فقہاء کرام ومفتیان عظام میں کسی دیگر شرعی مسئلہ کے حوالے سے اختلاف ہوجائے تو پھر ان کے مابین ترجیح قائم کرنے کا طریقہ کتاب وسنت نے یوں واضح فرما دیا ہے: ۱۔ ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیئٍ فَحُکْمُہٗ إِلَی اللّٰہ﴾ [الشوری:۱۰] ۲۔ ﴿ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾ [النساء:۵۹] گویا اس قسم کے اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ جس طرف دلیل قوی ہوگی، اسی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ البتہ یاد رہے کہ قراءات کے ضمن میں تو ایسا اختلاف پیش کرناچونکہ ممکن نہیں ، اس لیے یہ رویہ دیگر اختلافی امور کے بارے میں اختیار کیا جائے ہے۔ بہرحال اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کہ امت میں روایت حفص کے علاوہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری بھی بطور تعامل کے رائج ہیں اور سب سے زیادہ انتشار روایت حفص اور روایت ورش کو حاصل ہے، جبکہ روایت قالون آٹھ دس ممالک میں اور روایت دوری صومالیہ، سوڈان اور مصر وغیرہ میں رائج ہے، اب ہم بحث کرتے ہیں سوال مذکور کے جواب پر۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ روایت حفص کو زیادہ شہرت کیوں ملی، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں روایت ورش کو بھی تقریبا روایت حفص جتنی شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان چار روایات کی عوامی شہرت کے اسباب کیا ہیں اور ان کے بالمقابل باقی سولہ متواتر روایات زیادہ مشہورکیوں نہیں ہوئیں ؟ اس کا جواب تاریخی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے، ورنہ بطور دین تو ’حروف سبعہ‘ اور ان کی جمیع ترمنقولات(قراءات وروایات) کے مابین کوئی فرق نہیں ۔ جو وجہ بظاہر ان چار روایات کے انتشار کی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے فقہی تقلید کے آغاز کی وجہ سے عالم اسلام نے مختلف فقہوں سے جامد نسبت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے دسیوں آئمہ تھے جن سے عوامی عقیدت نے تقلید کا روپ دھار لیا تھا، جن میں امام ابو ثور رحمہ اللہ ، امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابرین شامل ہیں ۔ یہی وجہ کہ فقہ مقارن کی معروف کتب مثلا بدایۃ المجتہد وغیرہ میں جب متعدد مسائل میں فقہی مسالک کا ذکر ہوتا ہے تو آئمہ اربعہ کے علاوہ ان دیگر معروف شخصیات کے نام بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانوں میں فقہ آئمہ اربعہ کو دیگر آئمہ فقہاء کی آراء پر متعدد اسباب کی بنا پر عوامی قبولیت زیادہ حاصل ہوگئی، جس کی کوئی دینی یا علمی وجہ نہیں تھی۔ مثلا فقہ حنفی اور فقہ مالکی کو اتفاق سے سیاست کے ایوانوں
Flag Counter