Maktaba Wahhabi

351 - 933
میں گذر جانے والے تمام اہل علم متفق ہیں ، اختلاف صرف ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے بارے میں ہے، جس کا ثبوت قراءات سے تعلق بھی اضافی نوعیت کاہے، کیونکہ ثبوت ِقراءات حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف نہیں ، بلکہ بے شمار ایسی روایات ہیں جن میں حدیث ’سبعۃ أحرف‘ سے قطع نظر متنوع قراءات کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں ثبوتِ قراءات کے لیے محض وہ قطعی الثبوت اسانید ہی کافی ہیں ، جن پر’حجیت قراءات ‘کا اصلی دار ومدار ہے۔ سوال نمبر۳۱:روایت حفص ساری دنیا میں متداول ہے، باقی روایات اس قدر کیوں نہیں پھیلیں ؟ نیز بتائیے کہ کسی شے کی بطورِ دین اُمت میں شہرت اور قبولیت اس شے کے ثبوت وعلمیت کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں ؟ جواب: قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اتنی بات ہی کافی ہے کہ جن اَسانید کے ذریعے یاجس ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، وہ ذریعہ قطعی ہے۔ اسی طرح اس کے ناقلین کی لا تعداد کثرت اور رواۃ کی عدالت وثقاہت اس قدر معیاری ہے کہ روایت میں جھوٹ کااِمکان بالکل ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت روایات کے بجائے اُمت میں اس کی شہرت اور عوام الناس کے تعامل سے ہوتا ہے، جسے وہ اپنے بیانات میں ’تواتر عملی‘ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں ۔ ان کی رائے میں امت کے علماء اس سلسلہ میں کوئی معیار کا درجہ نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں اس سلسلہ میں اصل شے سوادِ اعظم کا معیار ہے۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسانید کے بجائے اپنے حفظ اور اپنی انتشارِ تلاوت کے ذریعہ محفوظ ہوا ہے، چنانچہ دنیا میں روایت حفص کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ یہی روایت اس معیار پر پورا اترتی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ بالفرض اس مقدمہ کو صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی یہ لوگ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ عالم اسلام میں دیگر کئی روایات کو بھی شہرت اور عملی قبولیت حاصل ہوئی ہے، لیکن کنویں کے مینڈک کے مصداق وہ یہی چاہتے ہیں کہ اپنے ہاں رائج لہجے ہی کو قرآن قرار دے کر باقی امت کے معاملہ میں تنگ نظری اختیار کرتے ہوئے کہہ دیں کہ قرآن صرف وہی ہے جو ہم پڑھ رہے، جبکہ امت کے باقی کروڑوں لوگ جس شے کو بطور قرآن پڑھ رہے ہیں وہ قرآن کریم نہیں ، بلکہ فتنہ عجم کی باقیات ہیں ۔ اس نظریہ میں کئی قسم کی سطحی اور عامیانہ باتیں موجود ہیں ، مثلا یہ کہنا کہ قرآن کے ثبوت میں اصل معیار اہل علم اور قراء حضرات نہیں ،بلکہ عوام الناس کا جاہلانہ تعامل ہے۔ معلوم نہیں کہ عوام الناس میں کسی شے کا بطور دین رائج ہوجانا دین جاننے وثابت ہونے کا کونسا معیار ہے؟ اس طرح سے تو تمام بدعات وخرافات اور ہماری معاشرتی غلط رسوم ورواج کو بھی دین قرار دینا پڑے گا۔ اگرجواب دیا جائے کہ تعامل یا نام نہاد تواتر عملی سے ہماری مراد اہل علم کا تعامل اور ان کا کسی شے کو بطور دین قبول کرنا ہے، تو اہل علم تو چودہ صدیوں سے بلا کسی ایک عالم کے استثناء کے تنوع قراءات کے صراحتاً قائل ہیں ۔ پھر جن عوام کالانعام کے تعامل کو یہ نام نہاد دانشور ثبوت ِدین کا معیار قرار دے رہے ہیں ، وہ صرف پاکستان اور ہندوستان کے عوام تو نہیں ہیں ، بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اس دائرے میں شامل ہونا چاہیے۔ عالم اسلام کے مسلمان تو ہزاروں ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں روایت حفص کے علاوہ دیگر قراءات کی بطور قرآن تلاوت کر رہے ہیں ۔ صرف ایک روایت ورش
Flag Counter