محتاج نہیں ہے، عین اسی طرح قرآن مجید اپنے ثبوت میں حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ صحابہ کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کسی بھی بات کو بطور قرآن یا بطور حدیث ماننے کے لیے جو بات ضروری ہے وہ محض اتنی ہے کہ اس کی روایت جس ذریعہ ہو، وہ محفوظ اور ایسا ہو کہ اس کے اوپر اعتماد کیا جاسکے۔اگرقرآن کریم کی روایت اور اس کے متنوع لہجے محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور اس پر ہمارا اعتماد واطمینان ہے تو اس کے بعد کوئی معنی نہیں رہتا کہ ہم اس بات کے ثبوت کے لیے کسی بھی حدیث کا حوالہ مانگیں ، مثلاً اگر ہم اس بات کے حوالے سے یہ مقدمہ مان لیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید کی تمام آیات اور سورتوں کو احادیث کی روشنی میں ثابت کیا جائے، حالانکہ مکمل قرآن کریم چھوڑیں ، کوئی ایک چھوٹی سی سورت کو بھی مکمل طور پر حدیث سے ثابت کرنا شائد مشکل ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا بہت سارا حصہ مثلا ۹۹فیصد کو کسی حدیث سے ثابت کرناممکن نہیں ۔ سورہ فاتحہ مکمل کی مکمل ابتداء سے لے کر آخر تک کسی حدیث میں مکمل طور پر نہیں آئی۔ اسی طرح سورۃ بقرہ کی تمام آیات اورسورۃ بقرہ شروع لے کر آخر تک کسی حدیث میں نہیں آئی اور ہم ان آیات اور ان سورتوں کو، جو قرآن مجید میں شامل ہیں ، اہل قرآن یعنی قراء کرام کی نقل پر اعتماد کرکے مانتے ہیں ۔ قرآن مجید کے کسی بھی اختلاف کو، برابر ہے قراءت عاصم ہو یا دیگر قراء ات، ان کو ان کی اپنی اسانید ورجال کی بنیاد پر مانا جائے گا، ناکہ سنت کی روایات واسانید سے ۔ مزید برآں مذکورہ سوال کے حوالے سے اگر ہم بالفرض تسلیم کر بھی لیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں بہت اختلاف ہے، تو اس کے جواب کے حوالے سے رشد قراءات نمبر حصہ اول میں ہم بحث کرچکے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں کثرت اقوال کا اگر سبب معلوم ہو جائے، تو اس اختلاف سے وحشت نہیں ہوگی۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف بنیادی طور پر مسئلہ اختیارات یا مسئلہ خلط قراءات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے ’اختیارات‘ کے مابعد نوعیت کو سامنے رکھ کر اس معاملے کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سارا اختلاف ان کے مابین ہے، ورنہ جن کی نظر اختلاف کے اس پس منظر کی طرف ہے، انہیں اس سلسلہ میں کبھی کوئی توحش اور تذبذب نہیں ہوا کہ اختلاف قراءات سے کیا مراد ہے اور ان کے نزول کا پس منظر کیا ہے۔ اسی لیے قراءات میں ’سبعۃ أحرف‘ کے مفہوم کے حوالے سے علماء میں جو اختلاف پایا جاتاہے، اس میں یہ چیز قطعی طور پر اچنبھے کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ اس بارے میں ۳۵ یا ۴۰ اقوال موجود ہیں ، اس لیے کہ بعض ائمہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ چالیس اقوال چالیس افراد کے نہیں ہیں ، بلکہ یہ بعض افراد کے اس مسئلے کے بارے میں ممکنہ احتمالات کا اظہار ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی سے دس دس احتمالات مروی ہوں ۔ پھر مزید برآں یہ پہلو انتہائی قابل نوٹ ہے کہ تمام لوگ جو ان اقوال کے قائلین ہیں ، ان کے مابین اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ سب تنوعِ قراءات کے قائل ہیں ۔ مذکورہ سوال کے جواب میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اختلاف اگر چالیس کے بجائے اَسّی ۸۰ اقوال کی صورت میں بھی موجود ہوتا توبھی یہ کہنا ممکن تھا کہ ان اَسّی کے اَسّی اقوال میں قدر مشترک یہ ہے کہ دین میں تعدد قراءات کا مسئلہ حتمی طور پر موجود ہے اور آج بھی باقی ہے، چنانچہ’ تعدد قراء ات‘ کے سلسلہ میں پچھلی چودہ صدیوں |