جزء نہیں رہیں ۔ یہ بات بھی سب کے نزدیک ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کے سات حروف میں جو اختلاف تھا وہ صرف لفظی تھا، مفہوم کے اعتبار سے تمام حروف بالکل متحد تھے، لہٰذا اگر کسی شخص نے قرآن کریم صرف ایک قراءت یا حرف کے مطابق پڑھا ہو تو اسے قرآنی مضامین حاصل ہوجائیں گے اور قرآن کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے حرف کو معلوم کرنے کی احتیاج نہیں ہوگی۔اس میں بھی کوئی ادنیٰ اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف تیارکرائے وہ کامل احتیاط، سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گواہی اور پوری اُمت مسلمہ کی تصدیق کے ساتھ تیار ہوئے تھے اور ان میں قرآن کریم ٹھیک اس طرح لکھ دیا گیا تھاجس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا اور اس میں کسی ایک متنفس کوبھی اختلاف نہیں ہوا۔ [حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے مصحف کو باقی رکھنے پرتو مصر رہے، لیکن مصاحف عثمانی کی کسی بات پر انہوں نے ادنیٰ اختلاف نہیں فرمایا۔] لہٰذا جس اختلاف کاذکر گذشتہ صفحات میں کیا گیا ہے، وہ صرف اتنی بات میں ہے کہ حدیث میں ’سات حروف‘ سے کیامراد تھی؟ اب جتنی متواتر قراء تیں موجود ہیں ، وہ ’سات حروف‘ پر مشتمل ہیں یا صرف ایک حرف پر؟ یہ محض ایک علمی نظریاتی اختلاف ہے، جس سے کوئی علمی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے اس سے یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ ان اختلافات کی بناء پر قرآن کریم معاذ اللہ مختلف فیہ ہوگیا ہے۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ایک کتاب کے بارے میں ساری دنیا اس بات پر متفق ہو کہ یہ فلاں مصنف کی لکھی ہوئی ہے، اس مصنف کی طرف اس کی نسبت قابل اعتماد ہے اور خود اُس نے اُسے چھاپ کر تصدیق کردی کہ یہ میری لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس نسخے کے مطابق قیامت تک اسے شائع کیا جاسکتا ہے، لیکن بعد میں لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ مصنف نے اپنے مسودے میں طباعت سے قبل کوئی لفظی ترمیم کی تھی یا جیسا شروع میں لکھا تھا ویسا ہی شائع کردیا۔ ظاہر ہے کہ محض اتنے سے نظری اختلاف کی بنا پر وہ روشن حقیقت مختلف فیہ نہیں بن جاتی جس پر سب کا اتفاق ہے، یعنی یہ کہ وہ کتاب اُسی مصنف نے اپنی ذمہ داری پر طبع کی ہے، اُسے اپنی طرف منسوب کیاہے اور قیامت تک اپنی طرف منسوب کرکے شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح جب پوری اُمت اس بات پرمتفق ہے کہ قرآن کریم کو مصاحف عثمانی میں ٹھیک اُسی طرح لکھا گیا ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا اور اس کی تمام متواتر قراء تیں صحیح اورمنزل من اللہ ہیں ، تو یہ حقائق اُن نظری اختلافات کی بناء پر مختلف فیہ نہیں بن سکتے، جو ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں پیش آئے ہیں ۔‘‘ واللّٰہ سبحانہ تعالٰی أعلم سوال نمبر۳۰: اگر قراءات قرآنیہ واقعتا ثابت ہیں ، تو ’سبعۃ أحرف‘کی مراد میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟ جواب: اس سوال کے پہلو میں ایک خاص ذہنیت کی عکاسی ہورہی ہے، جس کی بنیاد پر یہ شبہ پیدا ہوا۔ شایدسائل یااس قسم کا اعتراض کرنے والے لوگوں کے ذہن میں یہ غلط بنیاد موجود ہے کہ قرآن مجید اوراس کی قراءات متنوعہ یا علم القراءات سے متعلق متعددعلوم رسم وفواصل وغیرہ کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ حدیث سے ان کا ثبوت پیش کیاجانا ضروری ہے۔ اسی طرح دوسرا مغالطہ ذہن میں یہ ہے کہ حجیت قراءات ’حدیث سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت اور اس کے مفہوم کی تعیین پر موقوف ہے، چنانچہ اگر ’سبعۃ أحرف‘ کی حدیث ثابت نہ ہو یا ثابت تو ہو، لیکن اس کا مفہوم میں انتہائی اضطرابی کیفیت ہو تو دین میں مسئلہ متنوع قراءات مشکوک ٹھہرتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے مقدمات علمی اعتبارسے انتہائی سطحی اور قطعی طو رپر غیر صحیح ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے ثبوت کے لیے حدیث یا رواۃ حدیث سے قراءات کا ثابت ہونا ضروری نہیں ، بلکہ امر واقعہ میں ایسا ہوا ہی نہیں ۔ قرآن مجید کی روایت ہم تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اسی طرح سے پہنچی ہے، جیسے سنت کی روایت کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ جس طرح حدیث اپنے ثبوت میں قرآن مجید کی |