کی کئی آیات متشابہات میں سے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ اور عام اہل علم کے ہاں متشابہ کا کیا معنی ہوتا ہے؟ اس حوالے سے امام سیوطی رحمہ اللہ نے محکم ومتشابہ کے حوالے سے خود بھی الاتقان فی علوم القرآن میں تفصیلا بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب وسنت میں وارد بعض آیات کا مفہوم بعض اہل علم کی نسبت سے غیر واضح ہوتا ہے تو وہ اسے متشابہ کہہ کر دیگر اہل علم کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس کے تشابہ کو حل کردیں ۔ متشابہات کا انکار کسی شرعی نص کے صریح انکار مترادف ہے، اس پر ایمان لانا اور تسلیم کرنا مومن کے لیے فرض ہے۔ ان تمام وضاحتوں سے قطع نظر یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے ضمن میں وارد جمیع اَقوال میں اختلاف تضاد نہیں اور تمام مختلف اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کو سات متنوع اندازوں میں پڑھنا ثابت ہے، اختلاف صرف اس میں ہے کہ سبعہ اَسالیب کونسے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مختلف اَقوال میں موجود اختلاف کا تو انکار نہیں کرتے لیکن یہ بات پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ تمام گروہوں کے اقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائد قراءات ہیں ، جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے۔اس سلسلہ میں زیادہ پریشان کن اختلاف یہ نظر آتا ہے کہ’سبعۃ أحرف ‘ کا اختلاف عرضہ اخیرہ میں ختم ہوگیا تھا یا آج بھی باقی ہے؟ نیز موجودہ قراءات ایک حرف قریش کا حاصل ہیں یاجمیع ’سبعۃ أحرف‘ پر مشتمل ہیں ؟ ان دونوں مباحث میں امام ابن جریر رحمہ اللہ کا موقف انفرادیت کا حامل ہے، لیکن اس کے باوجود موجودہ قراءات سبعہ و عشرہ کی حجیت پرامام ابن جریر رحمہ اللہ سمیت جمیع اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں رشد ’قراءات نمبر‘حصہ اوّل میں مطبوع مضمون ’’قرآن کے سات حروف‘‘ از مولانامحمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی آخری سطور کو یہاں مکرراً ذکر کردیں ، کیونکہ مولانا نے اپنے مضمون میں امام ابن جریر رحمہ اللہ اور عام اہل علم کے مابین موجود اختلافی مباحث کو ہی موضوع ِبحث بنایا تھا۔ مضمون کے اختتام پر اِس ساری بحث کا نچوڑ وہ ان الفاظ سے پیش فرماتے ہیں : ’’آخر میں ایک بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی مذکورہ بحث کو پڑھنے والا سرسری طور پر اس شبہ میں مبتلا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جیسی بنیادی کتاب کے بارے میں جو حفاظت ِ خداوندی کے تحت آج تک بغیرکسی ادنیٰ تغیر کے محفوظ چلی آرہی ہے مسلمانوں میں اتنازبردست اختلاف آراء کیسے پیدا ہوگیا؟ لیکن ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث میں جو اقوال ہم نے پیچھے نقل کئے ہیں اگر ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس شبہ کا جواب بہ آسانی معلوم ہوجاتا ہے۔ جوشخص بھی اس اختلاف آراء کی حقیقت پر غور کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کاہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اوراس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کاکوئی ادنیٰ اثربھی مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اس بات پر دلالت کابلا استثناء اتفاق ہے کہ قرآن کریم جس شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے وہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے، ۱س میں کوئی ادنیٰ سا بھی تغیر نہیں ہوا، اور اس بات پر بھی تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اُن میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے۔ اس بات پر بھی پوری اُمت کااجماع ہے کہ متواتر قراء توں کے علاوہ جو شاذ قراء تیں مروی ہیں ، انہیں قرآن کریم کاجزء قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ ’عرضۂ اخیرہ‘ یا اس سے پہلے جو قراء تیں منسوخ کردی گئیں ، وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب قرآن کا |