روایات میں ہے وہ صرف اتنی ہے کہ انہوں نے طریق کتابت کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت میں یہ راہنما اصول اِرشاد فرمایا تھا: ((إذا اختلفتم أنتم وزید فی شیٔ فاکتبوہ بلغۃ قریش،فإنما نزَلَ بلسانہم)) [بخاری:۳۵۰۶] ان الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے رسم الخط اور کتابت کے ضمن میں یہ ارشاد فرمایا تھا، تلاوت وقراءت کے ضمن میں نہیں ، ورنہ الفاظ فاقروا بلغۃ قریش کے ہوتے۔ اسی لیے انہوں نے بعد میں اس کی وجہ بھی ذکر کی تھی کہ یہ اس لیے ہے کہ قرآن مجید اَصلا انہی کی زبان میں اترا ہے۔ ماہنامہ رشد ’قراءات نمبر‘ حصہ سوم میں اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون اس ضمن میں شامل اشاعت ہوگا، جس میں دلائل کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا جائے گا کہ روایت حفص اور عالم اسلام میں رائج دیگرمتداول روایات میں لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات بھی بھر پور طور پر شامل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زیر نظر مضمون کے سوال نمبر۵ تا ۱۰ پریہ تفصیلی بحث موجودہے کہ موجودہ قراءات میں ’سبعۃ أحرف‘ خلط ملط ہوکر شامل ہیں ۔ سوال نمبر۲۹: ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں آئمہ کے مابین پائے جانے والے شدید اختلاف کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا اس کے ذریعے متنوع قراءات کا مسئلہ ’متشابہات‘ میں سے معلوم نہیں ہوتا؟ موجودہ قراءات عشرہ(عشرہ صغری وکبری)کی حجیت کے حوالے سے ہم نے اپنے جوابات میں بارہا دعوی کیا ہے کہ ان کے قرآن ہونے میں چودہ صدیوں سے کسی جلیل القدر عالم کو اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ اس غرض سے آئندہ رشد کا ’قراءات نمبر‘ حصہ سوم میں ہم ایک مضمون شائع کریں گے، جس میں تفسیر، حدیث ،فقہ وغیرہ میدانوں سے تعلق رکھنے والے معروف سو اہل علم کی قراءات کے بارے میں آراء کا خلاصہ پیش کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ مسئلہ امت کے ہاں ’ مسلمات‘ میں سے ہے۔ بنیادی مغالطہ کا باعث یہ چیز ہے کہ متنوع قراءات کا ثبوت حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف ہے، حالانکہ یہ سراسر غیر صحیح بات ہے۔ قراءات کے ثبوت کی بنیاد اصلا ان اسانید کی صحت وقطعیت پر موقوف ہے، جو کہ متنوع قراءات کے ضمن میں تواتر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ مزید برآں حدیث ’سبعۃ أحرف‘سے قطع نظر لا تعداد ایسی روایات بھی ہیں جن میں باقاعدہ اَحادیث میں متعدد قراءات کاذکر موجود ہوا ہے۔ رہی حدیث ’سبعۃ أحرف‘، تو کیا متشابہات میں سے ہے یا نہیں ؟ اس کی بنیاد صرف اس بات کو بنایا جارہا ہے کہ علماء کے مابین اس مسئلہ کی تشریح کے ضمن میں اختلاف ہے، لیکن اہل علم کے ہاں محض اختلاف کا ہونا کسی شے کے متشابہات میں سے ہونے کی بنیاد نہیں بنتا، البتہ اگر کسی عالم کو کسی حدیث یا قرآن کی آیت کا مفہوم شدید الجھ جائے تو اسے وہ متشابہ کہے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۶ میں فرماتے ہیں کہ ﴿وَمَایَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗ إلَّا اللّٰہ وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ﴾[آل عمران:۶] ’متشابہات‘ کا معنی اللہ تعالیٰ اور راسخین فی العلم کو معلوم ہوتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر امام سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے دعوی کیاجاتا ہے کہ وہ حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کو متشابہات میں سے کہتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی شرح موطا میں جہاں اس حدیث کو اپنے ہاں حل نہ ہونے کی وجہ سے متشابہ کہا ہے، وہیں ساتھ ہی ذکر کیا ہے کہ یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح قرآن کریم |