Maktaba Wahhabi

346 - 933
اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے موقف کو مضبوطی دینے کے لیے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے۔ جو لوگ انکار قراءات کی ضمن میں مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اثر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو بطور حوالہ پیش کرکے سمجھتے ہیں کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ چھ حروف کے نسخ کے نام پر موجودہ قراءات عشرہ کے انکاری ہیں ، انہیں سوچنا چاہئے کہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو غلط معنوں میں پیش کرکے وہ قرآن کریم کی خدمت کے بجائے اس میں تحریف وتبدیلی کے دعوائے مستشرقین کے مؤید بن رہے ہیں ۔ مستشرقین نے تو اپنے تئیں امام ابن جریر رحمہ اللہ کو اپنا ہم نوا بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس ضمن میں یہ بالکل بھول گئے ہیں کہ وہ تنوع قراءات کے بہت بڑے حامی ہیں اور انہوں نے اپنی تفسیر میں قراءات سبعہ وعشرہ کی باقاعدہ حجیت کو تسلیم کیا ہے، بلکہ علم القراءات پر وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں ، جن کی تفصیل شائقین زیر نظر شمارے میں قاری محمد حسین کے قلم سے شائع شدہ تحریر ’’مختلف ازمنہ میں علم القراءات پر لکھی گئی کتب‘‘ کے ضمن میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مستشرقین کا حربہ یہ ہے کہ پہلے تو اس بات کو امام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کے حوالے سے غلط منوالیتے ہیں کہ چھ حروف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کردئیے تھے، پھراپنی طرف سے یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ اب جو حرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باقی چھوڑا تھا وہ کونسا تھا؟ اگر جواب دیا جائے کہ لغت قریش! توکہتے ہیں کہ قرآن کے نام پر رائج مطبوعہ مصاحف میں قریشی لغت کے علاوہ کئی دیگر لغات بھی شامل ہیں ، اس لیے کچھ معلوم نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا باقی چھوڑا تھا؟ واضح ہوگیا کہ آج امت کے پاس قرآن کریم کی محقق قراءت موجود نہیں ۔اسی طرح جب یہ مان لیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء توں کو ختم کردیا تھا تو یہ بات مستشرقین کے حق میں یوں جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ باقی رہ جانے والی قراءت کونسی تھی؟ہم جواب میں کہتے ہیں کہ روایت حفص! تو وہ کہتے ہیں کہ روایت حفص تو عالم اسلام کے صرف مشرقی علاقوں میں رائج ہیں ، عالم اسلام کے پورے مغربی بلاک کی قراء ت، روایت حفص سے مختلف ہے اور وہاں تو تین مزید روایات وقراءات کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس طرح سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ آج امت میں یہ امر طے نہیں کہ کونسی قراءت قرآن اور کونسی قراءت قرآن نہیں ہے۔ مشرقی ممالک کے جہلاء مغربی ممالک میں رائج قراء توں کا انکار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے عوام الناس مشرقی ممالک میں رائج قراءت کا انکار کرتے ہیں ۔ اس قسم کی باتوں سے خلاصۃً یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن مجید دیگر کتابوں کی طرح محرف ہے۔ اس لیے جو لوگ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کا موقف غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ،ان کو کوئی بات بھی جرأت سے کرنے سے قبل پہلے سوچ لینا چاہئے کہ انکار قراءات کے موقف کو اپنا کر کس کے ہاتھ میں دلیل پکڑا رہے ہیں ۔ اسی طرح جہاں عالم اسلام میں مروجہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری کا انکار لازم آئے گا، وہیں ہماری ’روایت حفص‘ بھی ثابت نہیں ہوپائے گی، کیونکہ جس سند سے روایت حفص ثابت ہے، عین اسی سند سے دیگر قراءات ثابت ہیں ۔ مستشرقین نے قرآن مجید کے بارے میں اس دعوی کے ثبوت کے لیے کہ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف لغت قریش کو باقی رکھا تھا، دلیل یہ پیش کی ہے کہ انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ اور ان کی کمیٹی کو کہا تھا کہ اختلافات قراءات میں سے صرف لغت قریش کو باقی رکھ کر قرآن لکھنا،حالانکہ یہ بات کہیں موجود نہیں ۔جو بات صحیح
Flag Counter