حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں سبعۃ أحرف پر تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے سبعۃ أحرف کی مراد کے تعین میں پانچ زیادہ معروف اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے قول کو یوں ذکر کیا ہے: فالأول:وہو قول أکثر أہل العلم، منہم سفیان بن عیینہ، وعبد اللّٰہ بن وہب،وأبو جعفر ابن جریر،والطحاوی: أن المراد سبعۃ أوجہ من المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ نحو أقبل وتعال وہلم۔[تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۱] امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے ذکر کردہ قول سے واضح ہوگیاکہ امام ابن جریر رحمہ اللہ بنیادی طور پر ’سبعۃ أحرف‘ سے جب ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو ان کے ہاں اس سے مراد ملتے جلتے معانی سے متعلقہ الفاظ مختلفہ مراد ہوتے ہیں ، جنہیں عام استعمالات میں ’مترادفات‘ کہا گیا ہے اور ’مترادفات‘ کے بارے میں جمیع اہل علم متفق ہیں کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ کر دئیے گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ سمیت جمہور اہل علم کی اس رائے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جب وہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو سبعہ لغات سے ان کی مراد ’’المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ‘‘، جیسے أقبل وتعال وہلم وغیرہ ہو تے ہیں ، چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ’سبعہ لغات‘ میں سے اختلافات ِمترادفات منسوخ ہوچکے، البتہ ذیلی اختلافات یعنی لہجوں اور اسالیب بلاغت کا اختلاف منسوخ نہیں ہوا، تو سمجھ آتا ہے کہ وہ کیوں کہتے ہیں کہ موجودہ قراءات عشرہ ( اصول وفروش) کا جمیع اختلاف ایک حرف قریش میں باقی ہے اور مترادفات کے منسوخ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چھ حروف منسوخ ہوگئے۔ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے بالمقابل وہ حضرات جو ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لیتے ہیں ، ان کے موقف کی نمائندگی تو رشد ’قراءات نمبر‘ حصہ اوّل میں سوال نمبر ۱۴، ۱۵ میں تفصیلا پیش کردی گئی تھی، البتہ ’سبعۃ أحرف‘ بمراد سبعہ لغات کے قائلین میں سے ان لوگوں کی رائے جوکہ موجودہ قراءات عشرہ کو جمیع ’سبعۃ أحرف‘ کا حاصل مانتے ہیں ، کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے سات حروف میں سے چھ حروف کے نسخ کی کوئی حتمی دلیل نہیں ، حالانکہ یہ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ جس کے لیے روایات میں کہیں نہ کہیں صراحت ضرور ہونی چاہیے تھی، نیز مترادفات کے ضمن میں چھ لغات کی تنسیخ کے قول کی دلیل میں محض تخمینی اندازے پیش کرنا، اہل علم کے معروف طریقوں وضابطوں کے مطابق دعوائے نسخ کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ مزید برآں جب یہ بات پیچھے ذکر کی گئی ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد سات معروف قبائل عرب کی لغات ہیں اور تسلیم کیا گیا ہے کہ ان لغات کے ذیل میں لہجوں اور اسلوب کلام کے اختلافات بھی شامل تھے تو بعد ازاں محض مترادفات کے منسوخ ہونے سے یقینی طور پر یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ لہجوں کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے ماخوذ ہے؟ جبکہ عملی استقراء بھی اس بات کا مؤید ہے کہ موجودہ قراءات میں لہجات کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے متعلق نہیں ۔ اس ضمن میں جہاں اہل علم نے تفصیلا بحث کی ہے، وہیں بعض اہل علم نے مستقل تالیفی کاوشیں بھی فرمائی ہیں ۔ عام طور پر مستشرقین نے قرآن کریم کی قراءات کو بنیاد بنا کر قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، |