کے بجائے’موقوف‘ ہی سے کی ہے، لیکن چونکہ وہ عملاً اسے کالمنسوخ ہی شمار کرتے ہیں ، چنانچہ ان کی رائے میں اس پہلوسے موجود سقم کے ضمن میں بعد ازاں ان کی طرف سے یہ رائے پیش کی جانے لگی کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے چھ حروف کو منسوخ کہنے کے قائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں ان کے موقف کے بعض قائلین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چھ حروف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منسوخ یا موقوف نہیں کیے تھے، بلکہ عرضہ اخیرہ ہی میں منسوخ ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے کوئی شے بطور امر سیاسی وتدبیری ’موقوف‘ نہیں کی تھی۔ یہ توجیہ بہرحال پہلی توجیہ سے صحیح ہے۔ مزید برآں یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ چونکہ صراحتاً چھ حروف کے نسخ کے بجائے عملاً انہیں ’موقوف‘ کردینا مانتے ہیں ، اسی لیے حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ نے یہ رائے بھی پیش کی ہے کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وقتی طور پر چھ حروف کو ’موقوف‘ کیا تھا، چنانچہ وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اب خلفائے راشدین کے دیگر سیاسی وتدبیری فیصلوں کی مثل اِن موقوف شدہ حروف کے مطابق تلاوت کی جاسکتی ہے۔البتہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی رائے کو اس حد تک انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ نمازوں میں بہرحال اُن موقوف شدہ حروف کو نہ پڑھا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری غلط فہمی معاملہ کی غلط توجیہ سے پیدا ہوئی ہے، اگر معاملہ کی توجیہ ہی صحیح کی جاتی تو نہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف سے مستشرقین کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملتا، نہ امام ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے اور نہ ہی بعد ازاں حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ اس قسم کی غیر متوازن رائے پیش فرماتے۔ حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے دلائل میں کتنا وزن ہے؟ اس کا فیصلہ ہم اہل علم پر چھوڑتے ہیں ، لیکن یہاں یہ ضرور ذکر کر دینا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اس موقف کو سمجھنے کے بجائے اُس پرسطحی اعتراضات کرتے ہیں ، انہیں اس بات پر لازما غور کرنا چاہیے کہ امام موصوف کا جہاں علم ِتفسیر وغیرہ میں مقام مسلمہ ہے، وہیں علم القراءات کے باب میں بھی وہ علمائے قراءات کے ہاں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی جلالت ِعلمی اور باریک نظری کے پیش نظر مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد صورتحال بالکل دوسری سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت میں عام اصحاب علم ان کی رائے سے متاثر بھی ہیں اور ان کی طرف میلان بھی رکھتے ہیں ، حتی کہ بعض محقق ماہرین فن جیسے پاکستان میں پانی پتی سلسلہ کے تمام اساتذہ قراء نے بھی کھل کر یہی رائے اپنائی ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ القراء قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی کتاب کشف النظر اردو ترجمہ النشر الکبیرکے تفصیلی مقدمہ کے صفحہ ۸۸ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ ایسے نہیں کہ ان کی رائے ان کی اونچے قد وقامت کی وجہ سے معروف ہوگئی ہو، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اساطین ِعلم جیسے امام طحاوی رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ اورکئی دیگر محققین اہل علم، جو کہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہوئے محض دلائل وتحقیق ہی کی روشنی میں آزادانہ فیصلہ صادر کرتے ہیں ، انکی رائے کی تائید فرماتے ہیں ۔ خود حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جوکہ فن قراءت کی نمائندہ شخصیت ہیں ، نے بھی النشر الکبیر میں ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث کے ضمن میں واضح اعتراف کیا ہے کہ اکثر اہل علم ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے پر ہیں ۔ |