Maktaba Wahhabi

364 - 933
سے، کہ جس پر وہ اپنی قراءات کو پرکھ لیں ، شدید اختلاف کی صورت اختیار کر گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حفاظ کرام سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصحف کی روشنی میں مزید مصاحف تیار کروائے اور انہیں ایک معیار کے طور پر مقرر فرمادیا جن کی مدد سے ثابت اور منسوخ قرآن کے مابین تمیز کی جاتی تھی،لیکن کیونکہ مصاحف کواَحرف سبعہ کی وجہ سے نقط واِعراب سے خالی رکھا گیاتھا اس لیے عوام بذات خود اِن کے پڑھنے پر قادر نہ تھے، اور کسی استاد سے قرآنی حروف کو بالمشافہ پڑھنے کے محتاج تھے۔اسی غرض سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ میں سے آئمہ قراءات کو مختلف شہروں کی جانب روانہ کیاچنانچہ : ٭ عبداللہ بن سائب مخزومی رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا گیا، جو یہاں ۷۰ھ تک پڑھاتے رہے۔ ٭ مغیرہ بن شہاب رضی اللہ عنہ کو شام بھیجا گیا، جہاں وہ ۹۱ھ تک رہے۔ ٭ جبکہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے یہاں ۳۲ھ تک پڑھایا۔ ٭ اور یہیں پر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بھی پڑھایا ۔ ٭ حضرت عبدالرحمن السلمی رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا گیا، جو یہاں ۷۴ھ تک پڑھاتے رہے۔ ٭ جبکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ میں ۴۴ھ تک پڑھاتے رہے۔ ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دورِ خلافت میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو حمص، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کود مشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فلسطین روانہ کیاتھا۔ صحابہ وتابعین میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جو قرآن کریم کی درس وتدریس میں مشغول رہے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو اِشاعت قرآن کے لیے وقف کر دیا۔پہلی صدی کے نصف اوّل تک لوگ اسی حالت پر قائم رہے پھراس کے بعد اِشاعت اسلام میں مزید اضافہ ہوا تو اس میں ہر جنس اور زبان سے متعلقہ لوگ داخل ہونے لگے۔ جس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیااور ایک ایک مجلس میں قرآن سیکھنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ دمشق میں حضرت ابو الدداء رضی اللہ عنہ کے حلقہ میں سولہ سو لوگ موجو دتھے۔[معرفۃ القراء للذہبی:ص۳۸] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ بڑی جانفشانی کے ساتھ عوام تک قرآنی حروف کو منتقل کرتے رہے،لیکن جیسے جیسے قرآن کریم سیکھنے والوں کی تعداد میں اِضافہ ہو رہا تھا ویسے ویسے اس خدشے میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھاکہ کہیں ثابتہ وغیر ثابتہ، مشہور، مستفیض اور آحاد وشاذ قراءات کو آپس میں خلط نہ کر دیا جائے۔ لہٰذا فن قراءات کے ماہر اَفراد نے کچھ ایسے اُصول اور ضابطے مقرر کیے جن کی مدد سے قرآنی اور غیر قرآنی حروف کے مابین امتیاز کیا جا سکے۔ اس کے لیے تین قسم کے قواعد کا اِجراء کیا گیا: ۱۔ سند کا تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہونا۔ ۲۔ روایت کا مصحف عثمانیہ کی رسم کے موافق ہونا۔ ۳۔ لغت عرب کی کسی بھی وجہ سے موافقت۔ ۴۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ کیا صرف مصحف عثمانیہ سے ہی مطابقت کافی نہ تھی، کیونکہ وہ ان تینوں شرائط
Flag Counter