Maktaba Wahhabi

365 - 933
کا حامل تھا۔ ۵۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں بہت سی جگہوں پر مختلف وجوہ کا احتمال پایا جاتا ہے جن کی تحدید صرف روایت کے ساتھ ہوسکتی ہے اور صرف کتابت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ کلمہ’ ملک یوم الدین‘ دس وجوہ کو گھیرے ہوئے ہے اور اہل بدعت نے اس دروازے سے قرآن کریم میں ایسے حروف کا اِضافہ کیا جو ان کی خواہشات کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتاتھا۔اگر معاملہ ضبط روایت کے بغیر ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا تو اس سے قرآن کریم میں بہت سے خلط اور اِضطراب کا امکان تھا۔جیسا کہ بعض قراء کا خیال ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں جتنی وجوہ کا بھی احتمال ہے اگروہ لغت عرب کے موافق ہوں تو ان کا پڑھنا جائز ہے اگرچہ وہ روایتاً ثابت نہ بھی ہوں ۔ جیسا کہ حافظ محمد بن الحسن المشہور ابن مقسم رحمہ اللہ کا خیال ہے۔ قراء کرام نے اس قول کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے اور بھرپور دلائل کے ساتھ اس کا محاکمہ کیا ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ نے ان تین شروط کو تین اشعار میں بیان کر دیا ہے، فرماتے ہیں : فکل ما وافق وجہ نحو وکان للرسم احتمالا یحوی وصح إسنادا ہو القرآن فہذہ الثلاثۃ الأرکان وحیثما یختل رکن أثبت شذوذہ لو أنہ فی السبعۃ ’’ہر وہ قراءت جو نحوی وجہ کے موافق ہو،ر سم کے(حقیقی یا) احتمالی طور پر موافق ہو جس کی سند صحیح ہو وہ قرآن ہے، یہی تین ارکان قراءات ہیں ۔ جس جگہ کسی بھی رکن میں خلل آگیا تو وہ قراءات شاذہ قرار پائے گی، اگرچہ قراءات سبعہ میں سے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ٭ اب ہم ترتیب وار ان تینوں شروط کی تفصیل پیش کرتے ہیں : تواتر اِسناد تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم صرف اسی طرح پڑھا جائے گا جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلا دیا اور اس سے تجاوز کی کسی شخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھرپور طریق سے اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ۔ ۱۔ لہٰذا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’القراءۃ سنۃ متبعۃ یأخذہا الآخر عن الأول‘‘ ’’ قراءۃ ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی گئی ہے اور اسے بعد میں آنے والوں نے پہلوں سے اخذ کیا ہے۔‘‘ ۲۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ’’اقرأوا کما علّمتم وإیاکم والتنطع‘‘ ’’ جس طرح تم کو سکھایا گیا ہے، اسی طرح پڑھو اور غلو سے بچو۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں پڑھا جس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچتی ہو اور
Flag Counter