ابن مقسم رحمہ اللہ کے علاوہ نہ ہی کسی نے ان میں استحسان یا قیاس کو داخل کیاہے اور انہوں نے بھی اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا تھا۔ ویسے بھی ایک منفرد شخصکی رائے اجماع کو ختم نہیں کر سکتی۔ ایک راوی کے لیے قرآنی حروف کو روایت کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ راوی نے اس حرف کو اپنے شیخ سے سنا ہو اور بعض کا خیال ہے کہ اس نے اپنے شیخ کے سامنے پڑھا ہو اور شیخ نے سماعت کی ہو،کیونکہ ہر سننے والا اس بات پر قادر نہیں ہوتاکہ جس طرح اس نے سنا ہو ،ہو بہو اسی طرح بیان کر دے۔جنہوں نے روایت اور تلقی دونوں کو واجب قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ قراءات کا فن ایک ایسا فن ہے جو نطق کی مختلف کیفیتوں کے ساتھ متعلق ہے۔اور تطبیق عملی اور سماع کے بغیر اس پر کامل عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا اور صرف کتابوں پر انحصار کافی نہیں ہے۔ پھر قرآنی حروف کا نقل ایک یا دو روایتوں میں کفایت نہیں کرے گا۔بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے جمہور قراء کے ہر طبقے میں نقل کیا گیا ہو اور یہ اس وقت تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتاجب تک کہ اتنی بڑی جماعت سے نقل نہ کیا گیا ہو جن کا جھوٹ پر اتفاق کرنا محال ہو۔ علماء روایت کے ہاں تواتر کا معروف معنی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص قراءت نقل کرنے میں منفرد ہو اگرچہ وہ جھوٹ نہ بھی بول رہا ہو اور اس کی عدالت اور ثقاہت میں بھی کسی قسم کا شک نہ ہو تو بھی اس کا انفراد اور شذوذ اس کی قراءۃ کو قبول کرنے سے مانع ہے۔ چاہے وہ قراءۃ لغت عرب اور مصحف رسم کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ اِصطلاح نئی مقرر نہیں ہوئی،بلکہ اس پر صدر اوّل کے علماء اُمت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااتفاق ہے اور موجودہ دور کے محققین اور متقنین بھی اس پرمتفق ہیں ۔تواتر کے معنی اور اس کی حقیقت کی وضاحت عنقریب ہم تواتر قراءات عشرہ کے ذیل میں کریں گے۔ مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت ٭ مصحف عثمانی کی کتابت کے بعد اس شرط پر صدر اوّل کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس صحف قرآن کی صورت میں جو کچھ بھی لکھا ہوا تھا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مصحف کی تدوین کے بعد باقیوں کو پانی کے ساتھ غسل دیا اور اس کے بعد جلا دیا۔پس پوری اُمت مصحف عثمانی کے پڑھنے اور پڑھانے پر جمع ہوگئی۔ ٭ تمام لوگوں کااس پر بھی اتفاق ہے کہ جو کچھ مصحف عثمانی میں درج ہے وہ بغیر کسی نقص وزیادت کے قرآن ہے اور جو کچھ اس میں درج نہیں کیا گیا وہ یا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے منسوخ کر دیا گیا، کیونکہ آپ نے اسے عرضۂ اخیرہ میں ترک کر دیا تھا یا پھر وہ حقیقتاً نازل ہی نہیں ہوا تھابلکہ تفسیر اور شرح کے طور پر لکھا گیا تھا۔ ٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک حرف میں متعدد وجوہ کا احتمال ہونے کی صورت میں انہیں مصحف میں ایک ہی جگہ جمع کر دیا، لیکن چونکہ تمام وجوہ لکھنے کی صورت میں لوگوں کے توہم کے شکار ہونے کا قوی اندیشہ تھا لہٰذا جن حروف میں متعدد وجوہ کا احتمال تھا ان کی کتابت میں ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ تمام وجوہ کو آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکے۔ |