Maktaba Wahhabi

367 - 933
اس لیے تمام حروف کو نقطوں سے پاک رکھا گیا۔ یاد رہے کہ جس جگہ ممکن ہوسکا ایسا طریقہ اختیار کیا گیا، کیونکہ تمام جگہوں پر ایسا ممکن نہیں تھا۔٭ مثلاًانہوں نے ’ملک‘کو میم کے بعدبدون الف کے لکھا۔ اسی طرح ’غیبت‘ ’رسالت‘ اور’جملت‘ کو بھی بغیر الف کے ہی لکھاگیا،لیکن ان کی کتابت میں ایسی صورت اختیار کی گئی کہ ان کو الف اور بغیر الف دونوں طرح پڑھا جا سکے، کیونکہ اہل عرب نطق کے وقت الف کی موجودگی کا اندازہ کر لیتے ہیں ، اگرچہ کتابت میں موجود نہ بھی ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اختیار کردہ طریقہ کتابت میں ذکرکردہ کلمات کومنزل وجوہ کے ساتھ پڑھا جا سکتا تھا۔ جیسے ’مَلِکِ‘ اور ’مَالِکِ‘، ’غَیَابَتْ‘ اور ’غَیَابَات‘، ’رسَالَت‘ اور’رسَالَات‘، ’جِمٰلَت‘ اور ’جِمَالَات‘ ان سب کو مفرد اور جمع دونوں طرح پڑھنا ممکن تھا۔اور یہ تمام کی تمام قراءات نازل کردہ ہیں ۔ اور اسی طرح ’الصراط‘ ’صراط‘ اور’ مصیطر‘ ان سب کو ’صاد‘ کے ساتھ لکھا گیا۔ ان میں دو وجوہ کا احتمال موجود ہے: ’صاد‘ کے ساتھ پڑھیں یا’ سین‘ کے ساتھ ۔اور لغت عرب میں ’صاد‘ کی جگہ پر ’ سین‘ کے نطق کا احتمال موجود ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ پر’ سین‘ لکھا ہوا تو اس کی جگہ پر ’صاد‘ نہیں پڑھا جائے گا کیونکہ اہل عرب کے ہاں اس کا عکس معروف نہیں ہے۔ ٭ پھر خط کے نقطوں اور شکل سے خالی ہونے کی وجہ سے بہت سے کلمات میں نازل کردہ متعدد وجوہ کو پڑھنے میں مدد ملی۔جیسا کہ کلمہ ’یرجعون ‘ کو بہت سی جگہوں میں ’تا‘ اور’یا‘ کے ساتھ پڑھنا ممکن ہے۔ اور’فیقتلون ویقتلون‘ میں پہلے فعل کو مجہول اور دوسرے کو معلوم یا اس کے برعکس پڑھا جا سکتاہے۔ ٭ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء کرتے ہوئے ان کے بعد آنے والے تمام علماء متفق ہیں کہ قرآن کی قراءت کا انحصار مصحف عثمانی پر ہے۔ جو قراءت مصحف عثمانی میں درج ہوگی صرف اسی کو پڑھا جائے گا اور جو قراءت مصحف عثمانی کی کسی بھی وجہ سے موافقت نہ رکھتی ہوگی اس کو بطور قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا صحیح سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سے ثبوت بھی ہو۔ تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہے کہ تمام احرف منسوخہ کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرضۂ اخیرہ میں ان کو نہیں پڑھا تھا۔ ٭ اس میں کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے سوائے امام محمد بن شنبوذ رحمہ اللہ کے۔ جو کہ چوتھی صدی ہجری کے بہت بڑے امام اور حافظ ہیں ، وہ اس اجماع سے الگ ہوگئے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ وہ تمام حروف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ثابت ہیں ان کی تلاوت کی جائے گی اگرچہ وہ رسم عثمانی کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ۔لیکن علماء وفقہاء بغداد نے ان کا ایسا علمی محاکمہ کیا ہے کہ جو اپنی نوع میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ لغت عرب کی کسی وجہ کی موافقت اس سے مقصود یہ ہے کہ ہر وہ قراءت جو متواتر سند کے ساتھ منقول ہو اور مصحف عثمانی کے خط کے بھی موافق ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ لغت عرب میں بھی اس کی کوئی وجہ بنتی ہو، اگرچہ وہ زیادہ معروف نہ بھی ہو۔مزید برآں آئمہ لغت کی رائے پر ایک ثابت قراءت کا رد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ علماء لغت اور آئمہ نحو کلام عرب کے قواعد اور اصطلاحات کو بنیاد بناتے ہیں جس کا زیادہ تر انحصار کلام عرب کے شعر اور نثر پر ہے۔اس لیے ہم لغت عرب کی کسی بھی
Flag Counter