وجہ سے موافقت کی صورت میں قراءت کو قبول کر لیں گے تاکہ عظیم مصدر، قرآن مجید میں ہر قسم کی لغزش سے محفوظ رہا جا سکے۔ ٭ لیکن بعض آئمۂ لغت، جنہوں نے لغوی قواعد وضوابط کو تحریر کیا ہے ان پر یہ بات گراں گزری ہے کہ وہ ایسے حروف کو مانیں جو ان کے ذکر کردہ قواعد وضوابط سے مطابقت نہیں رکھتے اور اس وجہ سے انہوں نے ثابت شدہ مروی حروف کو باطل قرار دے دیاہے اور جمہور قراء کرام کے ضبط پر پر طعن کرتے ہوئے ان کی روایات پر اتہام کے مرتکب ہوئے ہیں ۔آئمہ لغت پر تعجب ہے کہ انہوں نے جمہور قراء کی ایسی قراءات میں غلطی کا امکان ظاہر کیا ہے جو قطعی اوریقینی ہیں اور تواتر کے ساتھ منقول ہیں ، جبکہ انہوں نے اپنی ظنی اورفرضی رائے کو غلط قرار نہیں دیاجو ان کے لغوی بخارکی علامت ہے۔ ٭ انہوں نے اس قراءۃ حمزہ رحمہ اللہ کا انکار کیا ہے: ﴿وَاتَّقُوا اللّٰہ الَّذِی تَسَائَ لُونَ بِہِ وَالأرحَامِ﴾ اس آیت میں اسم ظاہر کا عطف اسم مضمر پر ہو رہا ہے جبکہ اہل لغت کے ہاں ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ ٭ اہل لغت نے ابو جعفر رحمہ اللہ کی اس قراءۃ کا بھی انکار کیا ہے: ﴿لِیُجْزَیٰ قَوْمَا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾ وہ ’’لیجزی‘‘ کے فعل مجہول ہونے پر’’ قوما ‘‘کو نصب دینا درست نہیں سمجھتے۔ ٭ اسی طرح انہوں نے ابن عامر رحمہ اللہ کی اس قراءۃ کا بھی انکا رکیا ہے : ﴿زُیِّنِ لِکَثِیْرٍ مِّنَ المُشْرِکِینَ قَتْلُ أوْلٰدَہُمْ شُرَکَائِہِم﴾ اس آیت میں چونکہ مضاف اور مضاف الیہ کے مابین فاصلہ ہے جو نحویوں کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ٭ جبکہ بعض نے ﴿إِنَّ ہٰذٰنِ لَسٰحِرٰانِ﴾میں ’إن‘ کی تشدید اور ’ہذان‘ پر الف کا انکار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ یہ کاتب حضرات کی غلطی ہے۔ ٭ بیان کردہ تمام قراء ات، متواتر اسنادکے ساتھ منقول ہیں جن کی صحت اور ضبط میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ان کی وجہ سے نحویوں کے قواعد پر زد پڑتی ہے اس لیے انہوں نے انہیں ماننے سے انکار کر دیا ہے۔لیکن اگر آپ ان قراءات کی وجوہ تلاش کریں گے، تو آپ دیکھیں گے کہ کلام عرب میں سے بہت سے شواہد اور قوی دلائل ان قراءات کی تائید کررہے ہوں گے۔ ٭ تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تیسری شرط اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے حقیقی حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ اس کو دو سبب کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے: ۱۔ اس کا وقوع ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسی کسی قراءۃ کا وجود نہیں ہے جو متواتر ہو، رسم عثمانی کے موافق اور لغت عرب میں اس کی کوئی وجہ نہ ہو۔ ۲۔ اور اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ ایک ایسی ثابت متواتر قراءت جو کہ رسم عثمانی کے موافق ہے لیکن لغت عرب میں ہمیں اس کی کوئی دلیل نہ مل رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پوری لغت عرب میں اس کا کوئی وجود نہیں |