کی درخواست کی۔پھر وہ دو حروف لے کر آئے۔میکائیل علیہ السلام نے پھر کہا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر آسانی کی درخواست کی، پھر تین حروف لے کر آئے اور اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حروف کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔ ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ اس کے بعد میں نے میکائیل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ خاموش ہوگئے میں نے اس سے سمجھا کہ اب شمار ختم ہوچکا ہے(اس پر زیادتی نہیں ہوگی) پس یہ دلیل ہے کہ معین عدد سات ہے۔ اصل میں اس حدیث سے جو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے اور دیگر اَحادیث جن کا مضمون بھی یہی ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد آپ کا درخواست نہ کرنا اور دل کامطمئن ہوجانا اس بات پردال ہے کہ سات کے عدد کو کافی سمجھ لیا۔ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کااطمینان قلب بھی قدرتی حکمت کے تابع ہے گویا اللہ کی مرضی و منشا بھی یہ تھی کہ سات حروف میں قرآن مجیدکوناز ل کریں ۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے مزیدسوال نہیں کیاتھا۔دراصل معلوم یہ ہوتا ہے کہ جتنے بھی الٰہی عظیم افعال ہیں ، ان میں خدا نے سات کی رعایت رکھی ہے۔ دیکھیں آسمان بنائے تو سات، زمینیں بنائی تو سات اور ان دونوں کی تکمیل کے بعد ساتویں دن ہی عرش پر مستوی ہوئے۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ سات سال کابچہ ہوجائے تو اس کو نماز کاحکم دو، اس لیے کہ یہ وہ مدت ہے کہ جب اس کو بہر صورت اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہئے۔ گویا جتنے بھی بڑے کام،انجام کے اعتبار سے ہوں یا بنفسہٖ معظم ہوں ، اس میں سات کے عدد کی رعایت کی ہے۔ اس طرح برتن میں اگر کتا منہ ڈال دے تو سات بار دھونے کاحکم ہے۔ گویا صفائی یہ بھی اللہ کو چونکہ نہایت پسند ہے، اس میں بھی سات کو پسند فرمایا۔ قرآن مجید کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اسے کل کائنات کے لیے نمونہ اور کتاب ہدایت بنناتھا تو اس کو بھی سات حروف پر نازل کیا۔ کمی وزیادتی نہیں کی،لیکن اب اگر کوئی قرآن کو ایک حرف پر محصور کردے تو گویا اس نے اللہ کے حکم اور حکمت کی مخالفت کی جس کاحساب اسے روز حشر اللہ تعالیٰ کے سامنے دینا ہوگا۔ قراءات کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے علمی فوائد قراءت کابظاہر اختلاف تنوع اور تغایر کی قسم سے ہوتا ہے تضاد و تناقض کے قبیل سے نہیں یعنی قراءت سے طرح طرح کے معانی سامنے آتے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود باہم متضاد اور مخالف نہیں ہوتے، کیونکہ کتاب اللہ میں تضاد محال ہیں، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ [النساء:۸۲ ] ’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف سے ہوتا تو اس میں اختلاف کثیرہوتا چنانچہ ناممکن ہے کہ ایک قراءت میں امر ہو اوردوسری میں نہی ہو یا کسی طرح تعارض ہو۔‘‘ علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام قراء توں کے اختلاف میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصداق کے اعتبار سے اختلاف کی تین قسمیں ہیں : اوّل:یہ کہ لفظ میں تبدیلی ہوجائے، لیکن معنی دونوں قراء توں میں ایک ہی رہے جیسے الصراط، السراط ....عَلَیْہِمْ،عَلَیْہُمْ ....القدْس، القدُس ....یحسِب یحسَب |