وَاتَّخَذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ، قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْکو قُلَ کَمْ لَبِثْتُم [المومنون:۱۱۲] قَالَ اَعْلَمُ أنَّ اللّٰہ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ [البقرۃ:۲۵۹] کو قَالَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ پڑھا گیاہے۔ ۳۔ اِعراب کے وجوہ میں اختلاف:جیساکہ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِیْمِ کو وَلَا تَسْئَلْ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِیْم [البقرۃ:۱۱۹]، اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً کو اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارۃٌ [النساء:۲۸۲]، اللّٰہ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِی الاَرْضِکو اللّٰہ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الاَرْض[ابراہیم:۲] اور فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ کو فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٌ [البروج:۲۲] پڑھاگیا ہے۔ ۴۔ زیادتی اور نقص کااختلاف:جیسا کہ وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ کو سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃ [ آل عمران:۱۳۳]، وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا کو اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا [التوبۃ:۱۰۷]، وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ کو وَمَا عَمِلَتْ اَیْدِیْھِمْ [یسٓ:۳۵] وَفِیْہَا مَا تَشْتَھِیْہِ الاَنْفُسُ کو مَا تَشْتَھِی الاَنْفُسِ[الزخرف:۷۱] اور فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ کو بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ [الشوریٰ:۳۰] اور فَاِنَّ اللّٰہ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ کو فَاِنَّ اللّٰہ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ [الحدید:۲۴] پڑھاگیا ہے۔ ۵۔ تقدیم وتاخیر کا اختلاف:جیسا کہ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا کو وَقٰتَلُوْاوَقُتِلُوْا[آل عمران:۱۹۵]،وَنَاٰی بِجَانِبِہٖ کو وَنَائَ بِجَانِبِہٖ [بنی إسرائیل:۸۳]، اَفَلَمْ یَایْئَسِِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا کو اَفَلَمْ یَایَسِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا [الرعد:۳۱] اور خِتٰمُہٗ مِسْکٌ کو خٰتَمُہٗ مِسْکٌ [المطففین:۲۶]پڑھا گیا ہے۔ ۶۔ اِبدال کا اختلاف :ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کی جگہ بدل دینا: جیساکہ ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُم کو ھُوَ الَّذِیْ یَنْشُرْکُمْ[یونس:۲۲]، وَمَا اَنْتَ بِہَادِیْ الْعُمْیَ کو وَمَا اَنْتَ تَھْدِیْ الْعُمْیَ[النمل:۸۱،الروم:۵۳]، لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِنْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا کو لَنُثْوِِیَنَّھُمْ [العنکبوت:۵۸] ، یَقُصُّ الْحَقَّ کو یَقْضِ الْحَقَّ [الانعام:۵۷]، کَیْفَ نُنْشِزُھَا کو کَیْفَ نُنْشِرُھَا[البقرۃ:۲۵۹]، وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْراً کو لَعْنًا کَثِیْرًا [الاحزاب:۵۸]، ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسکو ھُنَالِکَ تَتْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ [یونس:۳۰]، وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْن کو بِظَنِیْن [التکویر: ۲۴] ، وَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَاکو فَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَا [الشمس:۱۵] پڑھا گیاہے۔ ۷۔ لہجات میں اختلاف: جیسا کہ فتح، امالہ، اظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق، تسہیل، تحقیق، ابدال، نقل، تخفیف اور تشدید اس میں وہ کلمات بھی داخل ہیں جن کی ادائیگی میں قبائل نے اختلاف کیا ہے۔ جیساکہ خُطُوَاتٍ کو خُطْوَاتٍ،بُیُوْت کو بِیُوت،خُفْیَۃ کو خِفْیَۃ، یَحْسِبُ کو یَحْسَب، بِزَعْمِھِمْ کوبِزُعْمِھِمْ یَعْزُبُ کو یَعْزِبُ، اَلْقِسْطاس کو اَلْقُسْطَاس، یَلْحَدُوْنَ کو یُلْحِدُوْنَ، بِالْبُخْلِ کو بِالْبَخَلِ، ضُعْفًا کو ضَعْفاً، شَنَاٰنُکو شَنْاٰنُ، یَقْنَطُ کو یَقْنِطُ، فَلْیُسْحِتَکُمْ کو فَلْیَسْحَتَکُمْ پڑھا گیا ہے۔ اب آئیے ان اقوال کی روشنی میں درج ذیل عبارت کی مدد سے سمجھتے ہیں کہ سات میں کمی و زیادتی کیوں نہیں ؟ حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کو ایک حرف پر لے کر آئے تو میکائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے آسانی |