Maktaba Wahhabi

77 - 933
۲۔ حرکات اور معنی میں تغیر ہوجائے،لیکن صورت میں نہ ہوجیسے ﴿فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہٖ کَلِمَاتٍ﴾ اور ﴿آدمَ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٌ﴾ ۳۔ حروف اور صورت میں تغیر ہوجائے، لیکن معنی میں نہ ہو۔ جیسا کہ بصطۃ اور بسطۃ اور الصراط والسراط میں ہے۔ ۴۔ حروف اور معنی میں تغیر ہوجائے، لیکن صورت میں نہ ہو، جیسے تَبْلُوْا تَتْلُوا اور نُنَجِّیْکَ نُنْجِیْکَ ۵۔ حروف و معنی و صورت تینوں ہی میں تغیر ہوجائے، جیسے اَشَدَّ مِنْکُمْ، اَشَدَّ مِنْہُمْ اور یَأتَلِ،یَتَألَّ ۶۔ تقدیم و تاخیر کاتغیر فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ اور فَیُقْتَلُوْنَ،وَیَقْتُلُوْنَ ۷۔ حروف کی زیادتی و کمی کا تغیر ہو وَاَوْصَی وَوَصّٰی آپ مزید کہتے ہیں کہ اُصولی اختلافات جیسے اظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق،مد،قصر،امالہ،فتحہ،تحقیق،تسہیل،ابدال اور نقل وغیرہ میں لفظ و معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ صرف کیفیت ہی میں ہوتی ہے اور اگر مان لیں کہ تبدیلی ہوتی ہے تو پھر یہ ان سات میں سے پہلی قسم میں داخل ہوں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابوالفضل رازی رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے بھی قدرے مختلف عناوین سے یہی تشریح مراد لی ہے یعنی انہوں نے بھی سات حروف سے لفظی تغیر مراد لیا کہ جو بھی حرف ہوگا ان تغیرات سے باہر نہیں ہوگا۔ بعض علماء محققین نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ جب ہم قراءات متواترہ میں تغیرات کا شمار کرتے ہیں تو وہ اِن سات صورتوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور نہ ہی کم اور وہ صورتیں یہ ہیں : ۱۔ اسماء میں اختلاف: جو مفرد، تثنیہ، جمع اور مبالغہ کے قبیل سے ہوگا۔ جیسا کہ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْن [البقرۃ:۱۸۴] وَکِتٰبِہٖ وَرُسُلِہٖ [البقرۃ:۲۸۵] فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ[المائدۃ:۶۷] اللّٰہ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ [الانعام:۱۲۴] وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُم ْ[الاعراف:۱۵۷] أنْ یَعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہ [التوبۃ:۱۷] وَسَیَعْلَمُ الْکُفّٰرُ [الرعد:۴۲] اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِیْ الْمَجٰلِسِ[المجادلۃ:۱۱] یہ تمام الفاظ مِسْکِیْن، کُتُبِہٖ، رِسَالَتَہُ، إِصْرَھُمْ، مَسَاجِدَ، الکُفَّار، المَجَالِسِ مفرد وجمع پڑھے گئے ہیں ۔ ان میں ہر ایک میں دو دو قراء تیں ہیں ۔ ایک مفرد کے ساتھ اور دوسری جمع کے ساتھ۔ کبھی اسماء میں تذکیر وتانیث کے اعتبار سے اختلاف ہوتا ہے۔ جیسا کہ وَلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ کو وَلَا تُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ [البقرۃ:۴۸] کَأنْ لَمْ یَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ مَوَدَّۃٌکو کَأنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ [النساء:۷۳] وَاِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃ کو وَاِنْ تَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃ[الانفال:۶۵] پڑھا گیاہے۔ اسی طرح کبھی اسماء میں اختلاف مبالغہ کا ہوتا ہے۔جیسے عالم الغیب کو علَّام الغیب پڑھا گیاہے۔ ۲۔ افعال میں اختلاف: افعال میں اختلاف تصرف و تغیر کے قبیل سے ہوتاہے۔ جیساکہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً [البقرۃ:۱۵۸] کو وَمَنْ یَطَوَّعْ خَیْرًا، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ[البقرۃ:۱۲۵] کو
Flag Counter