چنانچہ اَصحاب ہذیل ’حتّٰی‘ کی بجائے ’عتی‘ بولتے تھے اور بنو اسد ﴿تَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ، اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ﴾ وغیرہ میں علامت مضارع کو کسرہ سے ادا کرتے تھے جب کہ بنی تمیم ﴿یَألَمُوْنَ، شِئْتَ یُوْمِنُوْنَ﴾وغیرہ میں ہمزہ پڑھتے تھے، لیکن قریش اس ہمزہ میں ابدال کرتے اور بعض ﴿قِیْلَ لَھُمْ﴾ اور ﴿غِیْضَ الْمَائُ﴾ میں اِشمام کرتے تھے۔ اسی طرح ﴿لَا تَاْمَنَّا﴾میں ادغام اور ضمہ کااشمام کرتے ....بعض ﴿عَلَیْھِمْ،فِیْھِمْ﴾جبکہ بعض ﴿عَلَیْھِمُوْ اور مِنْھُمُوْ﴾پڑھتے تھے۔اسی طرح بعض ﴿قَدْ اَفْلَحَ، قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ﴾ میں نقل کرتے جبکہ بعض ﴿ مُوْسیٰ، عِیْسَی، دُنْیَا﴾ کو امالہ سے، بعض تقلیل،(تھوڑے امالہ) سے پڑھتے تھے۔اسی طرح بعض ﴿خَبِیْراً اور بَصِیْراً﴾ کی راء کو ترقیق کے ساتھ اور بعض ﴿ اَلصَّلَاۃَ اور الطَّلاَق﴾ کی لام کوتفخیم سے پڑھتے تھے۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ان حضرات سے ہرگروہ یہ چاہتا کہ وہ اپنی لغت یعنی بچپن،جوانی اور بڑھاپے کی پڑی ہوئی عادت کو چھوڑ دے تو اس میں ان کو بڑی دشواری پیش آتی اوربڑی محنت کرنا پڑتی اور ایسا عرصہ تک مشق کرنے اور زبان کو مسخر کرنے اور عادت کو ترک کرنے کے بعد ممکن ہوتا، پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح اُمت کو دین میں آسانی دی تھی اسی طرح اپنے لطف و کرم و انعام سے قرآن مجیدکو پڑھنے میں بھی وسعت کردی تاکہ آسانی ہوجائے اور اُمت سے رحمت کامعاملہ ہوجائے۔ قرآن مجید سات حروف پر کیوں نازل ہوا؟ کم یازیادہ پر کیوں نہیں ؟ اکثر حضرات کہتے ہیں کہ عرب کے اصل اوربڑے بڑے قبیلے سات ہی تھے یا عرب کی فصیح اور باقاعدہ لغات سات ہی تھیں ۔ اسی لیے قرآن مجید سات حروف پر ہی نازل ہوا کم یازیادہ پر نہیں ، لیکن یہ محض دعویٰ ہے۔ اسی طرح بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ سبعہ سے سات کا مخصوص عدد مراد نہیں جس میں زیادتی و کمی کی گنجائش نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ اس میں وسعت و سہولت دے کر حق تعالیٰ نے مطلقاً اجازت دی ہے کہ قرآن مجید کو عرب کی لغات میں سے کسی لغت میں پڑھنا چاہو پڑھ سکتے ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پڑھ کر سکھایا ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عرب کی عادت ہے کہ سبعۃ ، سبعین اور سبع مائۃ بول کر اس سے معین عدد کی بجائے کثرت مراد لیتے ہیں ۔جیسے قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔﴿کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ....إِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَاللّٰہ لَہُمْ﴾حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہ استعمال موجود ہے:((وَالْجَنَّۃُ إلَی سبعمائۃ ضعف إلی أضعاف کثیرۃ)) اور((الایمان بضع وسبعون شعبۃ)) اسی قبیل سے ہیں ، یہ توجیہ بظاہر تو بڑی عمدہ ہے، لیکن درحقیقت یہ بھی درست نہیں ہے۔(جس کی وجہ آگے ذکر ہوگی) علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث پر۳۰ سال تک غوروفکر کیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کا ایک مطلب ظاہرفرمادیا اوروہ یہ کہ میں نے تمام قراءات کو تلاش کیا توان کے تغیر کو ذیل کی سات اَنواع سے مزید نہیں پایا۔انہیں میں نے دیکھا کہ سات قسموں میں سے کسی نہ کسی طرح کا تغیر ہوتا ہے۔ ۱۔ حرکات میں تغیر ہوجائے، لیکن لفظ کی صورت اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے جیسا کہ بالبُخل،بالبَخل |