Maktaba Wahhabi

75 - 933
ہے....اور ہم قراءت کی تعریف میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ ’’عبارۃ عن لفظ الأحرف مجموعا‘‘ ....’’یعنی حروف کے مجموعہ کو قراءۃکہتے ہیں ۔‘‘ یہی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں استعمال کی ہے۔ پہلے حروف کہا بعدازاں دوسرے جملے میں ان حروف کو قراءت سے تعبیر کردیا۔ ۲۔ اسی طرح حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ’’فقرأ قراءۃ أنکرتہا علیہ‘‘ کہاہے، حالانکہ نزول توحروف کاہواتھا، چونکہ قراءت حروف سے مرکب ہوتی ہے اس لیے قراءت کہ دیا اور بعد میں بھی اسی لفظ کودھرایا ہے۔’’إن ھذا قرأ قراءۃ سوی قراءۃ صاحبہ‘‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف توحروف میں تھاجس کو قراءت کہہ رہے چونکہ حروف کے مجموعہ کو قراءت کہتے ہیں ، لہٰذا انہوں نے حروف کو قراءت کہہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف کا تعلق قراءت سے ہے، جیسا کہ علامہ دانی رحمہ اللہ نے تعریف میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات حروف پرنازل ہونے کا سبب کیاتھا؟ سات حروف پر نازل ہونے کا سبب ....اُمت کی سہولت قرآن مجید کا سات حرف پرنازل ہونے کا سبب اُمت کو آسانی دینا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اعلیٰ ترین کتاب اور اشرف ترین رسول عطافرما کر سب اُمتوں پرفوقیت دی۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش، اُمت کی ضرورت اور اپنی خصوصی رحمت سے اُمت کے لیے مزیدآسانی فرماتے ہوئے قرآن مجید کو سات حروف پرنازل فرمایا۔چنانچہ اَحادیث میں موجودہے کہ جبریل علیہ السلام نے آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے عافیت اور مدد چاہتا ہوں ،میری اُمت اس پر عمل نہیں کرسکے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار درخواست کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سات حروف کی اِجازت دے دی۔ نیز صحیح روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ قرآن سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا اور پہلی کتابیں ایک ہی دروازے سے ایک ہی حرف پر نازل ہوتی تھیں اوریہ فرق اس لیے تھا کہ پہلے انبیاء کو صرف ان کی قوم کے لیے بھیجا جاتاتھا اور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب وعجم اور سفید وسیاہ یعنی تمام مخلوق کی طرف بھیجاگیا اور قرآن عرب کی لغت میں نازل ہواتھا اور عرب کی لغات جدا جداتھیں ۔ زبانیں متفرق تھیں اور ایک لغت والے کو دوسروں کی لغت میں پڑھنا دشوارتھا بلکہ بعض تو پڑھ ہی نہیں سکتے تھے دوسری قوم کے انداز قراءت میں پڑھنا تعلیم و تدبیر سے بھی ممکن نہیں تھا۔ خصوصاً بوڑھوں ، عورتوں ، اَن پڑھ لوگوں کو اور بھی دشواری تھی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اگر ہر حالت میں یہ حکم ہوتا کہ ایک ہی حرف پرقرآن مجید پڑھنا ہے تو یہ ان کی طاقت سے باہر ہوتا یا سخت مشقت درپیش آتی اور طبیعتیں قرآن کی تلاوت سے مشکل محسوس کرتیں ۔ چنانچہ ابومحمد عبداللہ بن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب مشکل میں کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسانی عطا کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ’’اپنی اُمت کو ان کی زبان اور عادت کے مطابق قرآن پڑھائیں ۔‘‘
Flag Counter