وقتی طور پر اس کو پکڑ کرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ یہ بھی نازل شدہ ہے اور یوں بھی نازل ہوا ہے اور أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کافرمان دہرایا تو آپ رضی اللہ عنہ کو یادآگیا اورخاموش سے سر تسلیم خم کر لیا۔ سبعۂ اَحرف سے کیا مراد ہے؟ مناسب یہ ہے کہ’علی سبعۃ أحرف‘ کی تشریح ہوجائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ حروف سے کیا مراد ہے؟آیاوہ قراءات ہیں یاپھر کوئی اور چیز؟ لغوی طورپر ’حرف‘ کا لفظ چھ معانی میں استعمال ہوتاہے۔ ۱۔حافہ ۲۔ ناحیہ ۳۔ وجہ ۴۔طرف ۵۔ حد ۶۔ کسی چیزکا ٹکڑا حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ کے مطابق اَحرف کے دومعنی ہوسکتے ہیں : ۱۔حرف بمعنی وجہ :یہ لغوی معنی کے مطابق ہے یعنی قرآن سات وجوہ پرنازل ہوا ہے اور ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہ عَلٰی حَرْفٍ﴾’’بعض لوگ اللہ کی عبادت ایک وجہ پر کرتے ہیں ‘‘ بھی اسی معنی سے ہے۔ پھر آگے اس کی توضیح فرمائی ہے کہ اگر ان کو خیر(نعمت و راحت، مال، عافیت، دعا کی قبولیت وغیرہ) حاصل ہوتی ہیں تو ایمان پرجمے رہتے اور عبادت کرتے رہتے ہیں اوراگر سختی، نقصان اور آزمائش کی حالت پیش آجاتی ہے تو کفر اختیارکرکے(حرف بمعنی) عبادت چھوڑ دیتے ہیں ۔ ۲۔ حرف بمعنی قراء ت:حرف کایہ معنی مجازی ہے اور یہ اس بنا پر کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کسی شے کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس چیز کا جزو یاقریب یا مناسب یا سبب یااس سے تعلق رکھنے والی چیز کانام ہو۔ بس چونکہ مختلف قراءات حروف میں تغیرسے پیداہوتی ہیں مثلاً حرکات کی تبدیلی، ایک حرف کا دوسرے سے اِبدال، تقدیم و تاخیر، اِمالہ،زیادتی و کمی اس لیے عرب کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کو(گو وہ طویل کلام ہو) حرف فرمادیا۔ گویا یہاں کل کی بجائے جزو کا نام استعمال کیا ہے جس کو اِصطلاح میں مجاز مرسل کہتے ہیں (یعنی حرف کہہ کر وہ کلمہ قرآنیہ مراد لیاگیا) جس میں خاص قراءت پائی جا رہی ہو،یہ ایسے ہی ہے جیسے تحریر رقبۃ سے مراد صرف گردن آزاد کرنا نہیں بلکہ پورا غلام آزاد کرناہوتاہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں سبعۃ أحرف لفظ کاجو استعمال ہوا ہے، وہ لغوی اعتبار سے وجہ کے معنی میں ہے اورمجازاً قراءت کے معنی میں ....لیکن اگر مذکورہ اَحادیث پر غور کیا جائے تو حرف کی حقیقت واضح تر ہوجاتی ہے۔ حرف سے مراد ’ قراء ت‘ہیں ۱۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ہشام رضی اللہ عنہ کو سنا ’’یقرأ علی حروف کثیرۃ‘‘ ....اس کے بعد جب حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر پڑھنا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’فقرأ علیہ القراءۃ التی سمعتہ یقرا‘‘ ....اب دیکھیں پہلے جملے میں فرمایا کہ وہ حروف پڑھے تھے، بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس نے وہ قراءت پڑھی جو میں نے اسے پڑھتے سنا تھا۔ گویا حروف سے مراد انہوں نے قراءت لیا |