ہم پر حجت کے طور پر لاگو ہو۔ ٭ اعتراض: یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو دوسری قراءت کاعلم ہی نہیں تھا جو ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ پڑھ رہے تھے حالانکہ وہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھنے والے تھے۔؟ جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث کامطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ بعض امور کادیگر صحابہ کو علم نہیں تھا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔اسی طرح ایسابھی ہوتا ہے کہ انسان کو علم تو ہو لیکن ذہن میں حاضر نہ ہو اور جب کوئی یاددلائے تو یاد آجائے۔ مثال کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کاواقعہ، صحیح بخاری جلد نمبر۲ صفحہ ۶۴۰ پر مذکور حدیث کوپڑھیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: إن أبابکر أقبل علی فرس من مسکنہ بالسنح حتی نزل فدخل المسجد فلم یکلم الناس حتی دخل علی عائشۃ فتیمم رسول اللّٰہ ! وھو مغشی بثوب حبرۃ فکشف عن وجھہ ثم أکب علیہ فقبلہ وبکیٰ ثم قال بابی أنت وأمی لایجمع اللّٰہ علیک موتتین أما الموتۃ التی کتبت علیک فقد متہا۔ پھر آگے دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: إن أبابکر خرج و عمر یکلم الناس فقال إجلس یا عمر فابی عمر أن یجلس فاقبل الناس إلیہ وترکوا عمر فقال أبوبکر أما بعد من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ومن کان یعبد اللّٰہ فإنہ حیی لا یموت قال اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ! قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ ....الشَّاکِرِیْنَ﴾وقال واللّٰہ لکان الناس لم یعلموا أن اللّٰہ أنزل ھذہ الایۃ حتی تلاھا أبوبکر فتلقاھا منہ الناس کلھم....الخ۔ ’’ان دونوں احادیث کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اور آکر یمنی کپڑاچہرہ مبارک سے اٹھاکر بوسہ دیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو موت لکھی تھی وہ آچکی ہے۔ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ جو یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں ، میں اس کاسر تن سے جدا کردوں گا تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ’’جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، تو اس کا رب آج دنیاسے رخصت ہوچکاہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اس کا رب زندہ اور حی قیوم ہے اور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے سورہ آل عمران کی آیت :﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ! قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ ....الشَّاکِرِیْنَ﴾(پڑھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم گویاکہ لوگوں کو اس آیت کاپتہ ہی نہیں تھا اور جیساکہ یہ اب ہی نازل ہوئی ہے پھر لوگوں پر خاموشی چھاگئی اور ہر ایک نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وہ آیت پڑھی۔‘‘ اب دیکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر کتنے صحابہ حافظ قرآن اور قاری تھے کیا کسی نے بھی یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی؟ہرگز نہیں بلکہ بہت سے صحابہ کرام کو اس کاعلم ہوگا اور اس کامفہوم بھی ان کے ذہن میں ہوگا لیکن اس وقت کسی کو یادنہیں آئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ’’گویا ان کو اس کاپتہ ہی نہیں تھا اوروہ محسوس کررہے تھے کہ یہ آیت ابھی ابھی نازل ہوئی ہے۔‘‘ اسی طرح أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو علم تو ضرور ہوگا، لیکن اگر انہوں نے کسی صحابی کو دیکھ لیا کہ وہ اس قراءت کے مخالف پڑھ رہاہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکھائی تھی، تو دین میں شدت کی وجہ سے |