نہیں ہوتا تھا تو مجرد قراء توں سے ہمارا خشوع و خضوع کیسے خراب ہوسکتا ہے؟ہاں ہم میں آج کل جو دینی کمزرویاں ہیں ، اس کی بنا پر تو خشوع میں فرق آسکتا ہے لیکن صرف اگر خشوع و خضوع خراب ہونے کو قراء توں سے مشروط کردیاجائے تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے خشوع کے بارے میں کیا خیال ہے جونمازوں میں دوسری قراءات پڑھتے تھے جیساکہ مذکورہ حدیث میں گزرا ہے اور آئندہ بھی مزید احادیث میں آنے والا ہے بلکہ یادرہناچاہئے کہ یہ احیائے سنت نبوی ہوگا جس کا ثواب بہت عظیم ہے۔ ٭ اعتراض: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو اعرابیوں کے لیے عذر تھا جس کی بنا پر قراءات کا جواز ہوا، اب وہ عذر باقی نہیں رہا، اس لیے نہیں پڑھنی چاہئیں ؟ جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کی ہرطرح سے تلاوت کی کھلی اجازت ہے یا اس کی تلاوت صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت پرمنحصر و موقوف ہے، تو واضح رہنا چاہئے کہ یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر ہی موقوف ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قراءات سکھلائی تھیں ہر طرح سے پڑھنے کی کھلی اجازت نہیں دے دی تھی جیسا کہ ہمیں ’’أقرأنی رسول اللّٰہ ‘‘ سے معلوم ہوتاہے اور جو چیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکھلا دیں یا حکم فرما دیں یا جس پرسکوت فرمایا وہ قیامت تک شریعت کاحصہ بن جاتی ہے۔ إنی بعثت إلی الناس کافۃ کا تقاضا یہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصول فقہ کاقاعدہ ہے کہ ’’عذر الماضین حجۃ علی الباقین‘‘ جس کو فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔یعنی متقدمین کاعذر متاخرین کے لیے حجت کاحکم رکھتا ہے چنانچہ اس وقت عذر تھا تو اس وقت وہ عذر ہم پر حجت ہے کیونکہآسانی ہمیں بھی چاہئے۔ صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۶۱۰،۶۱۱ میں روایت ہونے والی حدیث سے یہ اصول قرار پایا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : قدم رسول اللّٰہ ! وأصحابہ فقال المشرکون أنہ یقدم علیکم وقد وھنھم حمی یثرب وأمرھم النبی! أن یرملوا الاشواط الثلثۃ وأن یمشوا مابین الرکنین ولم یمنعہ أن یأمرھم أن یرملوا الا شواط کلہا إلا الابقاء علیہم قال ارملوا فیہ المشرکون قوتہم والمشرکون من قبل قعیقعان۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم جب بیت اللہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں رمل کریں (یعنی پہلوانوں کی طرح سینہ تان کر اور کچھ اکڑ کر چلیں کیونکہ قعیقعان پہاڑ کی طرف بیٹھے ہوئے مکہ کے مشرکین کو یہ دکھلانا تھاکہ مسلمان طاقتور ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے: قد وھنھم حمی یثرب کہ مکہ کے بخار نے مسلمانوں کو لاغر کردیا ہے، یہ ہم سے کیسے لڑسکتے ہیں ، لیکن جب انہوں نے صحابہ کو دیکھا تو کہنے لگے کانہم غزلان گویا کہ یہ تو ہرن ہے۔‘‘(اس روایت کو امام ابوداؤد نے بھی الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے) اب دیکھیں اس وقت رمل کا عذر مشرکین مکہ کودکھلاناتھاکہ ہم میں جسمانی طاقت ہے لیکن کیا کوئی ذی عقل مسلمان کہہ سکتا ہے کہ اس وقت عذر تھا اور آج وہاں مشرکین نہیں ، اس لیے حج یا عمرہ کرنے جائیں تو رمل نہیں کرنا چاہئے۔ نہیں بلکہ اب یہ ہمارے لیے رکن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک رمل نہیں کریں گے، مناسک حج کی تکمیل نہیں ہوگی۔ یہ حج تو صرف اس پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھے لیکن قرآن کامعاملہ تو اس سے بلند تر ہے تو کیوں نہ پہلوں کاعذر |