تک ان کے پاس رہے اور جب بھی امام زہری رحمہ اللہ مدینہ میں آتے تو امام مالک ان سے استفادہ کرتے اور ۳۵ سال کے لمبے عرصے تک امام زہری رحمہ اللہ کی مدینہ اور شام کے درمیان آمدورفت جاری رہی، تو علماء مدینہ نے ان کی تکذیب کیوں نہ کی؟ اگر بنوامیہ کے لیے یہ جھوٹ گھڑ کر دنیوی مقاصد حاصل کرتے تھے تو اہل مدینہ ان کے خلاف کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوئے؟ اور ان کے شیخ ابن مسیب نے ان سے برات کااظہار کیوں نہ کیا؟ حالانکہ وہ رجال کی جرح میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح دولت عباسیہ نے ان پر تنقید کیوں نہ کی؟ حالانکہ بنوامیہ کے عباسی بہت خلاف تھے۔ ائمہ جرح و تعدیل(مثلاً احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام مسلم، ابن ابی حاتم رحمہم اللہ ) وغیرہ نے ان پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ حالانکہ وہ دین کے بارے کسی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے۔ کیا ائمہ جرح و تعدیل کی توثیق، علماء مدینہ، ان کے شیخ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی خاموشی اور علماء کا ان سے احادیث کو لینا(دو رعباسیہ میں )اور علماء دور عباسیہ کا کلام نہ کرنا اس بات کے ٹھوس دلائل نہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ ان تمام اعتراضات اور شبہات(جو فی الحقیقت انکار حدیث کی پیداوار ہیں ) سے بہت بلند اور فائق ہیں اور کذب ووضع و ادراج و تدلیس و تعلق لنیل المال والعز کے الزام سے کہیں اعلیٰ و بلند و بالا ہیں ۔ مستشرقین اور ان کے ہم نواؤں کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس طرح استخفاف حدیث پیداکرکے، اس امام کو مجروح کردیا جائے جس نے تدوین حدیث میں بنیادی خدمات انجام دی ہیں ۔ جس کے بعد ہر کسی حدیث کو اس طرح کی طعنہ سازی کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل میں رد کردیاجائے اور اس اصل بنیاد کو مشکوک کردیا جائے جو علم حدیث کی پہلی کڑی ہے۔جیسا کہ امام مالک کافرمان گزر چکا ہے۔ ٭ اعتراض: نماز کے اندر روایت حفص کے علاوہ دوسری قراءات کونہیں پڑھا جاسکتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کیااور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے یوں مروی ہے۔ جواب: اگر تو اس اعتراض سے قراءات کامکمل انکار مقصود ہے تو اس کی حقیقت اور ہمارا استدلال واضح ہے اور اگر اس اعتراض کی نوعیت یہ ہے کہ یہ قراء تیں ویسے تو صحیح ہیں ، لیکن نماز میں درست نہیں تو بات بنتی ہی نہی، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک قرآن نماز کے علاوہ تو تلاوت پر مستحق ثواببناتاہے لیکن نماز میں اس کی تلاوت درست نہ ہو۔ چنانچہ مذکورہ بالا حدیث(جو متواتر درجے کی ہے) میں قراءات کایہ واقعہ خارج نمازنہیں بلکہ دوران نماز کاہے کہ حضرت ہشام نماز پڑھارہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ملاحظہ کریں : فتصبرت حتی سلم کہ میں نے بمشکل نماز میں صبر کیاحتیٰ کہ اس نے سلام پھیر دیا۔ اس عمل کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا جس کی آپ نے تردید نہ کی۔ گویا یہ تقریری حدیث ہوئی اور بعد ازاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان قولی حدیث کے ضمن میں آگیا۔ غرض صحابہ رضی اللہ عنہم نماز پڑھ سکتے ہیں تو ہمارے لیے بھی آج کوئی مانع نہیں ہے اگر صحابہ رضی اللہ عنہم سنت کی اتباع کرتے تھے تو ہم پر بھی واجب ہے کہ اس سنت کا احیاء کریں ۔ ٭ اعتراض:نماز کے اندر دوسری قراءت پڑھنے سے خشوع و خضوع خراب ہوتا ہے، اس لیے نماز میں دوسری قراءت نہیں کرنا چاہئے؟ جواب: فی الحقیقت یہ پہلے اعتراض کا حصہ ہے۔ غور طلب بات ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کاخشوع خضوع خراب |