رغبت کاساتھ دیتے ہیں ۔ بلکہ ایک اسلام پسند اور خیرخواہ عالم کی طرح اللہ کے دین اور مسلمانوں کی خیرخواہی چاہتے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی، موضوع روایتوں کودور کرتے ہیں اور خلیفہ وقت کو جھوٹے خوشامدیوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو دوسروں کو تو روکے اور خود ادراج یاتدلیس کرے یاپھر دنیوی مال کا طالب ہو حالانکہ خلیفہ کو اس کے منہ پروعید الٰہی بھی سناتے ہیں ۔ مزید شہادت کے لیے ابن عساکر رحمہ اللہ کی اس روایت کی طرف آئیے جو انہوں نے اپنی سند سے امام شافعی رحمہ اللہ تک پہنچائی ہے کہ ہشام بن عبدالملک رحمہ اللہ نے سلیمان بن یسار رحمہ اللہ سے ﴿والَّذِی تَوَلّّّّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْم﴾کی تفسیر پوچھی تو سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے امتحان لینے کے لیے کہا: نہیں بلکہ اس سے مراد تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ چونکہ ہشام رضی اللہ عنہ سنجیدہ نہیں تھا بلکہ وہ سلیمان بن یسار رحمہ اللہ کی صائب رائے پر مضبوطی کا امتحان لے رہا تھا۔بہرحال سلیمان رحمہ اللہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! آپ زیادہ جانتے ہیں ۔اتفاق سے کچھ دیر بعد ابن شہاب زہری رحمہ اللہ پھر ادھر آپہنچے تو ہشام رحمہ اللہ نے ان سے بھی آیت کی تفسیر پوچھی توامام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس سے مرادعبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ کہنے لگا:آپ غلط کہتے ہیں ،اس سے مراد تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔تو امام زہری رحمہ اللہ غصے میں آگئے اورکہنے لگے أنا أکذب؟ کیا میں جھوٹ بولتا ہوں ، لا أبالکتیراباپ مرجائے اورفرمایا: فواللّٰہ لو نادانی مناد من السماء ان اللّٰہ أحل الکذب ما کذبت یعنی اللہ کی قسم اگر آسمان سے اعلان کرنے والا کوئی اعلان کردے کہ اللہ نے جھوٹ کو حلال کردیا ہے تب بھی میں جھوٹ نہ بولوں گا۔ کیونکہ ’’حدثنی فلان و فلان إن الذی تولی کبرہ منہم ھو عبد اللّٰہ بن أبی بن سلول‘‘ یعنی فلاں فلاں نے مجھے حدیث بیان کی ہے کہ اس آیت سے مراد عبداللہ بن اُبی بن سلول ہے۔ دیکھیں صدیوں پہلے ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت سے امام زہری رحمہ اللہ کی صداقت کو ثابت کیا ہے جبکہ خلفاء کے ساتھ رابطے کی بنا پر امام زہری رحمہ اللہ پر طعن بازی کرنے والے مستشرق یہودی اور اس کے ہم نوا وجود میں بھی نہیں آئے تھے۔ کیااس کو امام زہری رحمہ اللہ کی امانت داری اور دیانتداری کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ بادشاہ وقت کو منہ پر أنا أکذب؟ لا أبالک جیسا سخت کلمہ کہہ رہے ہیں ۔ شاہ کے خوشامدیوں سے ایسی توقع قطعاً محال ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کاتعلق ایسا نہیں تھا جو کہ ان کے دین میں اور امانتداری میں نقص پیدا کرے بلکہ امام زہری رحمہ اللہ ایک خوددار شخص تھے جوغلط بات سن کر غضبناک ہوجاتے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے متعلق تاریخی حقیقت کو مسخ ہوتے دیکھتے تو آگ بگولہ ہوجاتے اور خلاف حقیقت کتاب اللہ کی کسی آیت کی تفسیر سن کر خلیفہ وقت کے سامنے تردید کردیتے۔ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ مستشرق گولڈ زیہر کاالزام یہ بھی ہے کہ اہل مدینہ کے علماء ان کے خلاف تھے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ نے مدینہ میں نشوونما پائی۔ علماء مدینہ سے ہی علم اخذ کیا۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی وفات |