Maktaba Wahhabi

80 - 933
دوم: لفظ اور معنی میں تبدیلی تو ہوجائے، لیکن دونوں کا مصداق ایک ہو یعنی دونوں ایک ہی ذات پر صادق آتے ہوں جیسے سورۃ فاتحہ میں مٰلِکِ اور مَلِکِ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہی ہیں ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن کے مالک بھی ہیں اور اس روز کے بادشاہ بھی، کیونکہ اس دن سب مجازی سلطنتیں بھی ختم ہوجائیں گی....بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُونَ اور یُکَذِّبُوْنَ(بقرہ) اس میں دونوں قراء توں پر فعل کی ضمیر منافقین کے لیے ہے۔ پہلی قراءت کی صورت میں معنی یہ ہوں گے ’’یہ منافقین اپنے آپ کو مومن بتلانے میں جھوٹ بولتے ہیں ‘‘ جبکہ دوسری قراءت کے یہ ہوں گے کہ ’’یہ منافقین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجھوٹا بتاتے ہیں ‘‘ ....کَیْفَ نُنْشِزُھَا اور نُنْشِرُھَا(بقرہ) اس میں بھی دونوں قراء توں میں مفعول کی ضمیرعظم(ہڈیوں ) کے لیے ہے جو مونث لفظی ہے چنانچہ پہلی قراءت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہڈیوں کو دیکھو ہم ان کو کس طرح ایک دوسرے پر چڑھاتے ہیں حتیٰ کہ وہ سب جڑ کر ایک ہوجاتی ہیں جبکہ دوسری قراءت کامعنی یہ ہوگا کہ دیکھو ہم ان ہڈیوں میں جان ڈال کر ان کو کس طرح زندہ کردیتے ہیں ۔پس قراء توں کے ذریعے دونوں معانی اَدا ہوگئے۔ سوم: لفظ و معنی دونوں میں تبدیلی آجائے اور دونوں کامصداق بھی جدا جدا ہو، لیکن کوئی ایسی توجیہ کرناممکن ہو جو دونوں کو متحد کردے اور تضاد پیدانہ ہونے پائے۔ ۱۔ مثالیں : وَظَنُّوْا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا اور کُذِّبُوْا میں ذال کی تخفیف والی قراءت پر ظن، وہم کے معنی میں ہے اور جمع کی تینوں ضمیریں کفار کے لیے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ کفار کو یہ وہم ہوگیا کہ رسولوں نے جو خبریں دی ہیں ان میں ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تشدید کی صورت میں ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کے لیے ہیں یعنی رسولوں کو اس بات کایقین ہوگیا کہ اب ان کی قوم نے انہیں پوری طرح جھٹلا دیا ہے ۔ضد اور مخالفت کے سبب اب ان کے ایمان لانے کی کوئی اُمیدنہیں رہی۔ ۲۔ وَاِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ اور لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَال: پہلی قراءت میں ان نافیہ ہے جو لام نفی کی تاکید کے لیے ہے جب کہ مضارع اَن مقدرہ کی بناپر منصوب ہے اورالجبال سے مجاز کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دین اسلام اور قرآن مجید مراد ہے یعنی کفار کی تدبیریں تو فی نفسہا بڑی بڑی اورمضبوط تھیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی تدبیر ایسی نہ تھی جن سے پہاڑ(نبوت، قرآن، دین حق) اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دین الٰہی مٹ جاتا بلکہ ان کی مخالفت کے باوجود بھی دین حق غالب ہی رہا اور ان کی تدبیریں نیست و نابود ہوگئیں اوردوسری قراءت پر اَن مخففہ من المثقلہ ہے اور لتزول کے پہلے لام پر فتحہ ہے اور یہ لام ابتدائیہ ہے جبکہ دوسرے لام کارفع ہے اور الجبال حقیقی معنی میں ہے پس اس سے یہی ظاہری پہاڑ مراد ہیں یعنی یہ بات یقینی ہے کہ کفار کی تدبیریں اس قدر مضبوط اور سنگین تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے مٹ جاتے، لیکن اس کے باوجود وہ دین الٰہی کومغلوب نہ کرسکے جو دین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر واضح ترین دلیل ہے۔ ۳۔ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ اور عَلِمْتُ(الاسراء) تاء مفتوحہ کی صورت میں عَلِمْتَ کافاعل اور مخاطب فرعون ہے یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ڈانٹتے ہوئے فرمایاکہ اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ آیات ومعجزات حق تعالیٰ نے نازل کئے ہیں ۔پس علم کے باوجود تیرا انکار ضد اور عناد کی بنا پر ہے، شک و شبہ کے طورپر نہیں اور تاء مضمومہ والی قراءت میں فاعل
Flag Counter