Maktaba Wahhabi

664 - 933
’’خلاصہ یہ ہے کہ رسم خط عثمانی کا اتباع لازم وواجب ہے، اس کے سوا کسی دوسرے رسمِ خط میں اگرچہ وہ بھی عربی ہی کیوں نہ ہو،قرآن کی کتابت جائز نہیں ۔ مثلاًاوائل سورت میں بسم اللّٰہ کو مصاحف ِعثمانیہ میں بحذفِ الف لکھا گیا ہے اور اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ میں بشکل الف ظاہر کیا گیا ہے۔ اگرچہ پڑھنے میں دونوں یکساں بحذفِ الف پڑھے جاتے ہیں مگر باجماعِ امت اسی کی نقل واتباع کرنا ضروری ہے۔ اس کے خلاف کرنا عربی رسمِ خط میں بھی جائزنہیں تو ظاہر ہے کہ سرے سے پورا رسم خط غیر عربی میں بدل دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے‘‘۔ (۸۱) مصحف ِعثمانی کی حجیت کے بارے میں رقمطراز ہیں : ’’....قرآن محفوظ وہی ہے جو مصحف ِامام اور مصحف ِعثمانی کہلاتا ہے۔ جو چیز اُس میں نہیں وہ قرآن نہیں اور جو چیز اس میں ہے وہ نہ مٹائی جا سکتی ہے اور نہ اُس میں کوئی ادنیٰ تغیر کرنا جائز ہو سکتا ہے۔ یہی راز ہے اُس اجماع کا جو اوپر نقل کیا گیا کہ مصحف ِعثمانی کے رسمِ خط کی بھی حفاظت واجب ہے‘‘۔ (۸۲) حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس کے بعد حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا إزالۃ الخفاء [۱/۲۶]کے حوالہ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے: ’’ لہٰذا محققین علمابآں رفتہ اند کہ درصلوات وغیراں خواندہ نشود مگر قراءت متواترہ وقراءت متواترہ آن ست کہ دردے دو شرط نہم آیندی کے آں کہ بسلسلہ روایت آں ثقۃً عن ثقۃٍ تا صحابہ کرام ثرسد نہ مجرد محتمل خطّے، دوم آن کہ خط مصاحف عثمانیہ محتمل آن باشد زیرا کہ چوں صورت حفظ آں تدوین بین اللوحین وجمع است براں مقرر شد ہر چہ غیر آن ست غیر محفوظ است غیر قرآن ست لان اللّٰہ تعالیٰ قال:وَاِنَّا لَہ‘ لَحٰفِظُوْنَ وقال اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہ‘....الخ‘‘ (۸۳) ’’یعنی محققین علماء کا خیال ہے کہ نمازوں وغیرہ میں قراءات متواترہ کے علاوہ اور کوئی قراءت نہیں کی جا سکتی۔ قرا ء تِ متواترہ سے مراد وہ قراءات ہیں جو(عربیت کی موافقت کے ساتھ)مزید شرائط یعنی ثقہ روات کے ذریعے اس کی سند کا صحابہ تک اتصال اور مصاحف ِعثمانیہ کے خط کے مطابق ہوں ۔کیونکہ جو چیز بھی بین اللوحین جمع ہے وہ انہی کے مطابق ہے ،اس کے علاوہ کوئی چیز قرآن نہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَاِنَّا لَہ‘ لَحٰفِظُوْنَ وقال اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ۔‘‘ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے صاحب ِنور الایضاح علامہ حسن شرنبلالی رحمہ اللہ کے ایک رسالہ’’النفخۃ القدسیۃ فی أحکام قراءۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ‘‘کا ذکر کیا ہے جس میں مصنف نے مذاہب ِاربعہ : حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی مستند کتب سے اجماعِ اُمت اور ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ قرآن کی کتابت میں مصحف ِامام کے رسمِ خط کا اتباع واجب ولازم ہے،غیر عربی عبارات میں اس کا لکھنا حرام ہے اور اسی طرح غیر عربی خط میں اس کی کتابت ممنوع وناجائز ہے۔ (۸۴) اس کے بعد علامہ حسن رحمہ اللہ کا ایک طویل اقتباس نقل کیا ہے،جس کے چند جملے حسب ِذیل ہیں : ’’وأما کتابۃ القرآن بفارسیۃ فقد نص علیہا فی غیر ما کتاب من کتب ائمتنا الحنفیۃالمعتمدۃ منہا ما قالہ مؤلف الہدایۃ الامام المرغینانی فی کتابہ التنجنیس والمزید ما نصہ ویمنع من کتابۃ القران بالفارسیۃ بالإجماع....ویحرم ایضاً کتابتہ بقلم غیر العربی‘‘(۸۵) مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فقہ حنبلی کے مشہور امام ،ابن قدامہ رحمہ اللہ کی تصنیف المغنی کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’اور حنابلہ کے مشہور فقیہ وامام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی کتاب مغنی کی حواشی میں اس کو اور بھی زیادہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جب سے قرآن دنیا میں آیا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعوت عجم کے سامنے پیش کی کہیں ایک واقعہ بھی اس کا مذکور نہیں کہ آں حضرت نے عجمیوں کی وجہ سے اُس کا ترجمہ کر کے بھیجا ہویا عجمی رسم خط لکھوایا ہو۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
Flag Counter