’’یعنی عجمی لغات میں قرآن کی کتابت اور اس کا حروف کے اعتبار سے ترجمہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟جبکہ اِن اجنبی لغات کے مخارجِ حروف عربی حروف کے مخارج کی طرح نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے اور کبھی یہ کم ہو جاتے ہیں ۔‘‘ اس طرح اگر ایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف پڑھ دیا جائے تو یہ تجوید کی اصطلاح میں ’لحنِ جلی‘ کہلاتی ہے۔ نیز کسی حرف کے بدلنے سے معنی کی تبدیلی لازم آتی ہے جو سخت ترین تحریف ِقرآن ہے(۷۶)۔جمہور فقہاءِ اسلام نے مذکورہ اوراِن جیسی دیگر مکروہات کی بنیاد پر قرآن مجید کو دیگر زبانوں میں لکھنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔ غیر عربی میں کتابت قرآن کی ممانعت کے حوالے سے خود رسول اللہ کا ارشادِ گرامی بھی موجود ہے جس میں مختلف زبانوں کے التباس سے قرآن کریم کو محفوظ کہا گیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کو نقل کیا ہے: ’’ھو حبل اللّٰہ المتین وھو الذکر الحکیم وھو الصراط المستقیم وھو الذي لا تزیغ بہ الأہواء ولا تلتبس بہ الألسنۃ ولا تشبع منہ العلماء ولا یخلف عن کثرۃ الرد ولا تنقضی عجائبہ‘‘(۷۷) علامہ کردی رحمہ اللہ نے غیر عربی میں قرآنی کتابت وقراءت کو ناجائز قرار دینے پر ائمہ کا اتفاق ذکر کیا ہے: ’’اتفقت الأئمۃ علی عدم جواز ترجمۃ القرآن وکتابتہ وقراء تہ بغیر العربیۃ،لأن ذلک یؤدی إلی التحریف والتبدیل بلا شک‘‘(۷۸) ’’یعنی قرآن مجید کے غیر عربی میں ترجمہ ،کتابت اور قراءت کے عدمِ جواز پر ائمہ کا اتفاق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بغیر کسی شک کے تحریف وتبدیل لازم آتی ہے۔‘‘ محقق ِمشہور،امام حفنی ناصف رحمہ اللہ(۱۸۶۰ء۔۱۹۱۹ء)،تاریخ رسم المصحف میں رسمِ املائی کے مطابق کتابت ِقرآن کے قائلین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ولا یبعد ـ إذا سلم کلام ہؤلاءِ العلماء ـ أن یذہب غیرہم إلی استحسان کَتْب المصاحف بالحروف اللاتینیۃ، وآخرون إلی اختصارہ، وآخرون إلی إرجاعہ للغۃ العامیۃ لیعم نفعہ، إلی غیر ذلک من الرََقَاعات والمَخْرَفَۃ، وما ذا بعد الحق إلا الضلال؟‘‘(۷۹) مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ تحذیر الانام عن تغییر رسم الخط من مصحف الامام مذکورہ عنوان پر جامع تصنیف ہے جس میں عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں قرآن مجید کی کتابت(translateration)کے تفصیلی اَحکام بیان کیے گئے ہیں ۔یہ رسالہ دراصل ٹامل زبان میں ترجمۂ قرآن کے بارے میں استفتاء کے جواب میں تحریر کیا گیا۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ غیر عربی میں کتابت قرآن کے بارے میں صحابہ کا طرزِ عمل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ان سب مشکلاتِ مزعومہ کے باوجود صحابہ وتابعین نے کہیں یہ تجویز نہیں کیا کہ قرآن کو ملکی رسم الخط میں لکھوا کر ان لوگوں کو دیا جائے۔ بلکہ ان حضرات نے جس طرح قرآن کے معانی اور الفاظ اور زبان کی حفاظت کو ضروری سمجھا اسی طرح اُس کے رسم الخط کی بھی مصحف ِعثمانی کے موافق حفاظت کرنا ضروری سمجھا ۔ اور ان مشکلات کو حفاظت مذکورہ کے مقابلہ میں ناقابلِ التفات قرار دیا‘‘۔ (۸۰) رسمِ عثمانی کے التزام اور اجماعِ امت سے استدلال کرتے ہوئے غیر عربی میں کتابت قرآن کی حرمت اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں : |