یصعب علی أحد ــ إذا لقنہا ــ أن ینطق بہا صحیحۃ‘‘(۷۱) ’’یعنی دورِ حاضر میں خصوصاً تمام مصاحف حرکات واعراب کے لحاظ سے مکمل ہیں اورعام املاء سے مخالف کلماتِ قرآنیہ کے بارے میں لوگوں کی آسانی کیلئے ممکنہ وضاحتی بیانات سے پر ہیں ۔ مزید برآں مصحفِ عثمانی کا رسم سوائے چند کلمات کے عام قواعدِ املا ء کے موافق ہے،تو اِن چند کلمات کا کسی سے سیکھ کر ادا کرنا کچھ مشکل نہیں۔‘‘ علامہ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والذی اجتمعت علیہ الأمۃ: أن من لا یعرف الرسم المأثور یجب علیہ أن لا یقرأ فی المصحف،حتی یتعلم القراءۃ علی وجہہا،ویتعلم مرسوم المصاحف‘‘(۷۲) ’’یعنی اِ س بات پر علماءِ امت کا اتفاق ہے کہ جو شخص قدیم رسمِ قرآنی سے واقفیت نہ رکھتا ہو وہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت نہ کرے یہاں تک کہ وہ قراءۃ کے ساتھ ساتھ مصاحف کے رسم کے بارے میں بھی تعلیم حاصل کرے۔‘‘ حافظ احمد یار رحمہ اللہ جامعہ الازہر کی مجلس ِفتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’الازہر کی مجلس فتویٰ کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ مجلۃ الازہر) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسمِ عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے ۔اس کے بعد سے طباعت ِمصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہوگئی ہے‘‘۔ (۷۳) مفتی ٔ ہند مولانا محمد غنی رحمہ اللہ (معدنی) نے ایک استفتاء کاجواب حسب ِذیل الفاظ سے ارشاد فرمایا: ’’فإن الکتابۃ بخلاف المصاحف العثمانیۃ بدعۃ مذمومۃ وفعل شنیع باتفاق الأمۃ ‘‘(۷۴) ’’یعنی مصاحف ِعثمانیہ(کے رسم )کے خلاف(مصاحف کی )کتابت، باتفاقِ اُمت قابل مذمت بدعت اور برا کام ہے۔‘‘ الغرض علماءِ سلف کی طرح دورِ جدید کے جید علماء ومحققین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دورِ حاضر میں مصاحف کی کتابت وطباعت کے دوران رسمِ عثمانی کی اتباع ہی لازمی وضروری ہے۔ عربی زبان کے علاوہ دیگر لغاتِ عالم میں قرآن مجید کی کتابت(translateration)دورِ حاضر کاایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔چنانچہ آئندہ بحث میں اس مسئلہ کی تحقیق پیشِ خدمت ہے۔ عجمی لغات میں کتابت مصحف اور اس کا حکم عربی رسم الخط کے علاوہ دیگر زبانوں اور ان کے رسم الخط میں قرآنی کتابت کو جمہور نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ رسمِ عثمانی کا عدمِ التزام ہے کیونکہ اگر قرآن مجید کوکسی عجمی رسم الخط میں لکھا جائے تو اِس سے کئی حروف و کلمات کا سقوط لازم آتا ہے جو کہ قراءت قرآن کیلئے کسی طور جائز نہیں ۔ مثلاً:اگر قرآن مجید کو انگریزی زبان میں translateration کے ساتھ لکھا جائے جیسے: وَالضِّحیٰ کو Wazuha لکھنا۔ مثالِ مذکور میں حرفِ Z عربی ہجاء میں سے ذ،ز،ض کی آواز دیتا ہے ۔ عربی حروف کے مخارج سے واقف یا کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والاشخص جانتا ہے کہ ذ،ز اور ض تینوں کے مخارج علیحدہ علیحدہ ہیں ۔جبکہ غیر عربی زبان میں عربی حروفِ ہجاء کے مخارج کا لحاظ رکھنا ناممکن ہے: ’’وکیف یمکن کتابتہ او ترجمتہ حرفیا باللغات الأجنبیۃ ومخارج حروفہا لیست کمخارج الحروف العربیۃ، وعدد حروف ہجائہا قد یزید عنہا وقد ینقص‘‘)۷۵) |