کی ایک جماعت بھی یہی سمجھتی ہے کہ کلمہ کی کتابت اُس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیے، لیکن قرآنی رسم اس سے مستثنیٰ ہے : ’’ ذھب جماعۃ من أہل اللغۃ إلی کتابۃ الکلمۃ علی لفظہا إلا فی خط المصحف،فإنہم اتبعوا فی ذلک،ما وجدوہ فی الإمام ۔ والعمل علی الأول‘‘ (۶۵) رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں محقق مناع القطان رحمہ اللہ کی رائے حسب ِذیل ہے: ’’والذی أراہ أن الرأي الثانی ہو الرأي الراجح، وأنہ یجب کتابۃ القرآن بالرسم العثمانی المعہود في المصحف....ولو أبیحت کتابتہ بالاصطلاح الأملائي لکل عصر لأدی ہذا إلی تغییر خط المصحف من عصر لآخر، بل إن قواعد الإملاء نفسہا تختلف فیہا وجہات النظر في العصر الواحد، وتتفاوت في بعض الکلمات من بلد آخر‘‘(۶۶) ’’یعنی میرے خیال میں التزام ِرسمِ عثمانی کی رائے راجح ہے اور اب قرآن مجید میں رسمِ عثمانی کے مطابق کتابت ہونی چاہئے۔ اگر مروّجہ املائی کتابت کے ساتھ قرآن مجید لکھنے کی اجازت دے دی جائے تو ہر زمانہ میں قرآن مجید کا رسم دوسرے زمانہ سے مختلف ہو گا، بلکہ قواعد ِاملائی خود ایک ہی زمانہ میں مختلف جہات سے متغیر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک شہر کے مصاحف کے کلمات دوسرے شہر کے مصاحف سے مختلف ہوں گے۔‘‘ مذکورہ اَقوال کے علاوہ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ جس طرح دیگر اسلامی علوم اورورثہ کی حفاظت مسلم معاشرہ پر ضروری ہے اسی طرح قرآن مجید سے منسوب ایک رسم اور طرزِ کتابت کی حفظ وصیانت بطریقِ اولیٰ لازمی امر ہوگا۔ اس کے بارے میں حافظ احمد یار رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’یہ’حفاظت ورثہ‘ والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسمِ قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کاحکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’نقطۂ توجہ‘ یہ لکھا کہ(آثارِ سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضۂ اوّلین ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز شیکسپئر(یا دوسرے قدیم شعراء مثل چوسروغیرہ) کا کلام انہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اِجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘ (۶۷) دورِ جدید کے علماء کے فتاویٰ جات مصری تحقیقی جریدے ’المنار‘ نے۱۹۰۹ء میں محمد رشید رضا رحمہ اللہ کا فتویٰ شائع کیا جس میں ملا صادق الایمان قولی القزانی رحمہ اللہ ، جو کہ روسی ممالک میں طباعتِ مصاحف کے سلسلہ میں رسمِ مصاحف کی کمیٹی کے تفتیشی سربراہ تھے،نے حسب ذیل استفتاء کیا: ’’ھل یجب اتباع الرسم العثمانی فی کتابۃ المصحف؟ أم ھل تجوز مخالفتہ للضرورۃ التی من أمثلہا: کلمۃ(ء اتٰن) فی الآیۃ ۳۶ من سورۃ النمل، حیث کُتبتْ فی المصحف العثمانی بغیر یاء بعد النون۔وکلمات:(الأعلام)و(الأحلام)و(الأقلام)و(الأزلام)و(الأولاد)، حیث کُتبت ایضًا فی بعض المصاحف بحذف(الألف) بعد اللام؟‘‘ (۶۸) |