المحذوفۃ،فلا مخافۃ علی وقوع الناس فی الحیرۃ والإلتباس‘‘(۲۷) ’’یعنی مؤخر الذکر دونوں مذاہب کے قائلین کا رد ممکن ہے:اوّلاً: رسمِ عثمانی کی مخالفت میں صحابہ ،تابعین اور پہلے ادوارِ مقدسہ کے اجماع کی مخالفت لازم آتی ہے۔ثانیاً:جدید قواعدِ املائیہ ہر زمانہ اور ہر نسل میں تغیروتبدل کا شکار رہے ہیں ۔ اگر ہم قرآنی رسم کو اِن قواعد کے مطابق لکھنے کی اجازت دے دیں تو اس سے قرآن میں تحریف کا باب کھل جائیگا۔ ثالثاً:التباس اور لوگوں کی پریشانی کا باعث رسمِ عثمانی نہیں ، کیونکہ اب مصاحف منقوط ہیں اور ایسی علامات وضع ہو چکی ہیں جو کہ زائدیا محذوف حرف کے بدلے اضافی حروف پر دلالت کرتی ہیں ۔لہٰذا اب لوگوں کی پریشانی اور التبا س کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ عوام الناس کی اس مشکل کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’الغرض اوّل تو یہ مشکلات محض خیالی ہیں ان کو مشکل تسلیم کرنا ہی غلطی ہے اور بالفرض تسلیم بھی کیا جائے تو ہر مشکل کا ازالہ ضروری نہیں ۔یوں تو نماز روزہ وغیرہ ،ارکانِ اسلام سب ہی کچھ نہ کچھ مشکل اپنے اندر رکھتے ہیں ‘‘۔(۲۸) علامہ ابو ہشام رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’علماء کا اس بات پر اجماع ہونے کے بعد کہ رسم مصحف توقیفی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں ایک یہ رائے بھی سامنے آئی کہ رسم عثمانی کو دیگر آثارِ قدیمہ کی طرح محفوظ کر لیا جائے اور عام لوگوں کی آسانی کے لئے قرآن کو ان کے معروف رسم الخط میں لکھا جائے۔ اس رائے کے مطابق کچھ عملی کوششیں کی گئیں ۔ مثلاً: بچوں کے لئے ایسے سپارے چھاپے گئے جن میں ہر آیت رسم عثمانی کے ساتھ ساتھ عام رسم الخط میں بھی لکھی گئی تھی۔ بظاہر تو یہ بات بہت فائدہ مند تھی، لیکن یہ اُلٹا بوجھ بن گئی اور زیادہ غلطیاں ہونے لگیں ۔ لہٰذا اس رائے کو ترک کر دیا گیا‘‘۔ (۲۹) رسمِ عثمانی کے متجدد مخا لفین دیگر اسلامی اَحکام میں مدلل بحث وتمحیص کی طرح رسمِ عثمانی کے التزام اور عدمِ التزام کے معاملہ میں بھی علماءِ سلف میں سے جنہوں نے اس کے التزام سے اختلاف کیا انہوں نے یقیناً اپنے ایمان کو بچانے کے ساتھ ساتھ قرآنی رسم کے خصائص و فوائد سے ہر گز انکار نہیں کیا، چہ جائیکہ وہ رسمِ عثمانی پر طعن وتشنیع کریں ،لیکن بد قسمتی سے چند متجددین نے رسمِ عثمانی میں خامیوں کی تلاش شروع کی اور اس کو ناقص قراردینے کے ساتھ صحابہ کرام کی طرف بھی ناگفتہ بہ باتیں منسوب کی ہیں ۔اِ س کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ غانم قدّوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فإن طائفۃ من المحدثین تنسب إلی العلم أطلقت ألسنتھا تصف الرسم بما نجل الرسم والصحابۃ الذین کتبوہ عن مجرد ذکرہ، وھو إن دل علی شئ، فإنما یدل علی الجہالۃ فی العلم والبلادۃ في الذہن والقصور في الادراک، إن لم یدل علی سوء النیۃ وخبث القصد والعداء لکتاب اللّٰہ العزیز‘‘(۳۰) اِن متجددین میں دو(۲) نام سرِ فہرست ہیں : ۱۔عبد العزیز فہمي المصري: مصری متجدد عبد العزیز فہمي نے ’الحروف اللاتینیۃ لکتابۃ العربیۃ‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کو مطبعۂ مصر نے۱۹۴۴ء میں قاہرہ سے شائع کیا۔مذکورہ کتاب میں مصنف نے رسمِ مصحف پر دل کھول کر اعتراضات کیے ہیں اور رسمِ مصحف کو ’بدائیۃ سقیمۃ قاصرۃ‘(ص۲۱)جیسے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔صفحہ ۲۳ پر رسمِ عثمانی کو غیرمعقول |