فقدان ہے۔ مصاحف کے مُصحّحِین حضرات بھی رسم کی اغلاط سے یا تو خود بے خبر ہوتے ہیں یا رسم کی بجائے حرکات کی اغلاط پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ نظریاتی حد تک لوگ ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کے قائل رہے ہیں بلکہ محتاط کاتب نقل صحیح کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ منقول عنہ نسخہ میں ہی اغلاط موجود ہوں۔(۲۴) دورِ حاضر میں رسمِ عثمانی کی بجائے رسمِ املائی میں کتابت ِمصاحف کے جواز کی سب سے بڑی وجہ عوامی سہولت بیان کی جاتی ہے، لیکن جن لوگوں نے دورِ حاضر میں ، عوام کی سہولت کی خاطر،جدید رسمِ املائی کے مطابق مصاحف کی کتابت و طباعت کو ضروری قرار دیا ہے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ التباس و اشتباہ عوام کی بجائے پڑھے لکھے طبقہ کے مسائل میں سے ہے کیونکہ عوام کیلئے مشافہت وتلقی ضروری ہے۔ مشافہت وتلقی کے بغیر عام آدمی رسمِ املائی کو بھی غلط طریقہ پر ادا کر سکتا ہے ۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ احمد یار رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’عوام کی بجائے عرب ممالک کے خواندہ لوگوں کے لئے رسم الخط کی ثنویت(روز مرہ میں رسمِ قیاسی اور تلاوت میں رسمِ عثمانی سے واسطہ پڑنا) التباس اور صعوبت کا باعث بنتی ہے ۔ ورنہ دنیا میں لاکھوں (بلکہ شاید) کروڑوں ایسے مسلمان ہیں جو اسی رسم عثمانی کے مطابق لکھے ہوئے مصاحف سے اپنے علاقے میں رائج علاماتِ ضبط کی بنا پر ہمیشہ درست تلاوت کرتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ’عوام‘ کا نام تو محض ایک نعرہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ورنہ ضرورت تو پڑھے لکھے عربی دانوں کو رسمِ قرآن سے شناسا کرنے کی ہے ۔ رسمِ قرآنی کو ترک کر دینا اس کا کوئی علاج نہیں ۔بلکہ اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں جبکہ رسمِ عثمانی کے التزام میں متعدد علمی اور دینی فوائد کا امکان غالب ہے‘‘۔ (۲۵) لہٰذا مناسب ہے کہ عوام الناس کو رسمِ عثمانی اور اس کے رموز وفوائد اور خصوصیات سے روشناس کرایا جائے اور سرکاری سرپرستی میں اس کے انتظامات ترتیب دیے جائیں ۔اس کا ایک حل وہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں : ’’ مگر جدید اور قیاسی املاء کے عادی خواندہ لوگوں کے لئے رسمِ قرآنی میں کیسے سہولت پیدا کی جائے ؟ اس سوال کا ایک جواب تودقت نظر سے اختیار کردہ علامات ِضبط کا نظام ہے، دوسرا علاج اس کا الازہر والوں نے ۱۳۶۸ھ میں ایک دوسرے فتوی کی صورت میں دیا جس کی رو سے یہ جائز قرار دیا گیا کہ اصل متن تو رسمِ عثمانی کے مطابق ہی رہے مگر نیچے ذیل(فٹ نوٹ) کے طور پر ’’مشکل‘‘ کلمات کو جدید املاء یا رسم ِ معتاد کی شکل میں الگ بھی لکھ دیا جائے۔ چنانچہ عبدالجلیل عیسیٰ کے حاشیہ کے ساتھ ’’المصحف المیسر‘‘ اسی اصول پر علماء الازہر کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا تھا۔یہ بھی اس مسئلہ کا ایک عمدہ حل ہے ۔ تاہم غالباً پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں یہ پڑھے لکھے عربوں کے مسئلہ کا حل ہے۔ہمارے ہاں رسمِ عثمانی کا مکمل التزام درکار ہے‘‘۔ (۲۶) رسمِ عثمانی کے متعلق مذکورہ دونوں نظریہ ہائے عدمِ التزام کا ردّ کرتے ہوئے علامہ السندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’أما ما ذہب إلیہ أصحاب المذہبین الآخرین ، فیمکن الرد علیہم: ۱۔ فیہما مخالفۃ لإجماع الصحابۃ والتابعین وأہل القرون المفضلۃ۔ ۲۔ القواعد الإملائیۃ العصریۃ عرضۃ للتغییر والتبدیل فی کل عصر، وفی کل جیل، فلو أخصعنا رسم القرآن الکریم لتلک القواعد لأصبح القرآن عرضۃ للتحریف فیہ۔ ۳۔ الرسم العثماني لا یُوقع الناس في الحیرۃ والإلتباس،لأن المصاحف أصبحت منقوطۃ مشکلۃ بحیث وُضعت علامات تدل علی الحروف الزائدۃ، أو الملحقۃ بدل |