الإشارات والعقود والرموز، فکل رسم دالٌّ علی الکلمۃ مفیدٍ لوجہ قراء تہا تجب صحتہ وتصویب الکاتب بہ علی أی صورۃ کانت۔ وبالجملۃ فکل من ادّعی أنہ یجب علی الناس رسم مخصوص وجب علیہ أن یقیم لحجۃ دعواہ۔ وانی لہ ذلک‘‘۔ (۱۴) ’’علامہ زرقانی رحمہ اللہ ، مذکورہ رائے پر مناقشہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ رائے کئی وجوہ کی بنیاد پر قابلِ استدلال نہیں ۔ مثلاً:علامہ باقلانی رحمہ اللہ کی رائے کے مقابلہ میں سنت اور اجماعِ صحابہ کے علاوہ جمہور علماء کے اقوالِ التزام موجودہیں ۔قاضی ابو بکر رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ سنت سے ثابت نہیں تو یہ بھی مردود ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتّابِ وحی کو اسی رسم کا حکم ارشاد فرمایا،جیسے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جمع ابی بکر اور پھر جمع عثمانی میں اسی رسم کے موافق کتابت کی جو وہ عہدِ نبوی میں استعمال کرتے تھے۔مذکورہ رائے کے ابطال کی تیسری وجہ اجماعِ صحابہ کا انعقاد ہے اس کے بعد کسی ممکنہ صورت کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ہم اجماعِ صحابہ کے خلاف اس کی اجازت دیں ۔‘‘(۱۵) عبد العزیز دباغ رحمہ اللہ نے قاضی ابوبکر رحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا: ’’قاضی ابو بکر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ رسم الخط کے اتباع کا وجوب نہ کتا ب اللہ سے ثابت ہے نہ کلام الرسول سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے،(لہٰذا اختیار ہے جس طرح چاہے لکھے)،صحیح نہیں ہے۔ کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو کچھ بھی تم کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آؤ۔ اور یہ واضح ہو چکا کہ رسم الخط توقیفی ہے ،صحابہ کی اصطلاح نہیں ہے(لہٰذا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا ہے اور اس کا لینا واجب ہے)۔ اور اگر یہ شبہ کرو کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق پر کتابت ِ قرآن کا حکم نہیں فرمایا ،تو آپ کے زمانہ میں صحابہ کا اس طریق پر لکھنا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو قائم وبرقرار رکھنا ہی[سنتِ تقریری کے ذریعے]حکم کے درجہ میں ہے‘‘۔ (۱۶) جامعۃالازہر کی مجلسِ فتویٰ نے بھی علامہ ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کی رائے کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کتابت ِمصحف میں رسمِ عثمانی کے التزام کا حکم دیا: ’’أما ما یراہ أبو بکر الباقلانی من أن الرسم العثماني لا یلزم أن یتبع فی کتابۃ المصحف فھو رأي ضعیف لأن الأئمۃ في جمیع العصور المختلفۃ درجوا علیٰ التزامہ في کتابۃ المصحف،ولأن سدّ ذرائع انفساد ۔مہما کانت بعیدۃ۔ أصل من أصول الشریعۃ الإسلامیۃ التي تبني الأحکام علیہا وما کان موقف الأئمۃ من الرسم العثماني إلا بدافع ہذا الأصل العظیم مبالغۃ في حفظ القرآن وصونہ‘‘ (۱۷) ’’یعنی بہرحال ابو بکر الباقلانی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت ِمصحف میں رسمِ عثمانی کا اتباع لازم نہ ہونے کی رائے ضعیف ہے،کیونکہ تمام ادوار میں علماء ِامت نے کتابت مصحف کیلئے رسمِ عثمانی کے التزام کو ہی ترجیح دی ہے۔ ممکنہ فساد کے اسباب کا تدارک ہی شریعت کا اصل الاصول ہے جس پر احکام کا مدار ہے۔بعینہٖ رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں ائمہ کا موقف بھی قرآن کی حفظ وصیانت کے اسی مقصد ِعظیم کے دفاع کیلئے ہے ۔‘‘ علماء کے مذکورہ اقوال کے علاوہ مصری مجلسِ فتویٰ کی صراحت کے بعد قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کے موقف کے جواز اور اس سے استدلال کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کے علاوہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے بھی رسمِ عثمانی کی مخالفت کو جائز قرار دیا ہے۔مقدمہ میں رقمطراز ہیں : ’’ولا تلتفتن فی ذلک إلی ما یزعُمہ بعض المغفَّلین من أنہم کانوا محکمین لصناعۃ الخط، وأن ما یُتخیل من مخالفۃ خطوطہم لأصول الرسم لیس کما یُتخیّل،بل لکلہا وجہ.... |