Maktaba Wahhabi

649 - 933
ومسلک کا قائل شمار کیا ہے۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں : ’’یمیل صاحب التبیان ومن قبلہ صاحب البرھان، إلی ما یفہم من کلامہم العز ابن عبد السلام،من أنہ یجوز بل یجب کتابۃ المصحف الآن لعامۃ الناس علی الاصطلاحات المعروفۃ الشائعۃ عندھم....‘‘(۱۱) مذکورہ صراحت کے بعد یہ کہنا درست ہو گا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ بھی رسمِ عثمانی کے التزام کے قائلین میں سے ہیں اور انہوں نے علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ جہاں تک علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کے موقف ومسلک کا تعلق ہے تو وہ مجتہد اور جید عالم دین ہونے کے لحاظ سے اپنی رائے کے اظہار کا حق محفوظ رکھتے ہیں ، کیونکہ وہ امت کے معاملہ میں تیسیر وسہولت کے قائل تھے۔ جیسا کہ علامہ غانم رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے: ’’ولیس غریبا علی الإمام العز مثل ھذا الرأي الذی تفرد بہ فھو صاحب نظریۃ المصالح، فالشریعۃ(کلہا مصالح،إمّا تدراً مفاسد أو تجلب مصالح)،وقد أداہ اجتہادہ أن فی مذہبہ مصلحۃ وتیسیراً علی الأمۃ‘‘ (۱۲) ’’یعنی امام عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کی انفرادی رائے کی وجہ سے اُن پر اظہارِ تعجب نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ نظریۂ مصالح سے واقف کار ہیں اور شریعت مصالح سے بھر پور ہے خواہ وہ مفاسد کو دور کرنے کا معاملہ ہو یا کسی مصلحت کے حصول کا۔ انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق مصلحت اور امت پر آسانی کے پیش نظر اجتہاد ی موقف اختیارکیا ہے۔‘‘ ورنہ متاخرین علماء میں سے کوئی قابلِ ذکر نام ایسا نہیں جس نے اِس رائے مذکورہ سے اتفاق کیا ہو،کیونکہ صحابہ کرام کا اتفاق صرف اُسی معاملہ پر ممکن ہوسکتا ہے جو اُن کے ہاں متحقق ہو کر واضح ہو چکا ہو۔جیسا کہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ولم یکن ذلک الصحابۃ کیف اتفق بل علی أمر عندھم قد تحقق‘‘ (۱۳) چنانچہ رسمِ عثمانی سے پرہیز اور اس کے عدمِ التزام کا نظریہ صرف علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کے ایک قول کے سہارے پر کھڑا ہے جو کہ علماءِ امت کے اجماع کے مقابلے میں متروک العمل ٹھہرتا ہے۔ رسمِ عثمانی کا جوازِ عدمِ التزام رسمِ عثمانی کے عدمِ التزام کے متعلق پہلے اور دوسرے نظریہ میں وجوب اور جواز کا فرق ہے۔اِس ضمن میں سب سے پہلے قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ نے مستعمل طریقۂ ِاملاء میں مصاحف کی کتابت کے جواز کا فتویٰ دیا۔ان کے نزدیک کسی دلیل ِ قطعی سے امت کیلئے کوئی متعین رسم مخصوص ومشروع نہیں کیا گیا۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے الانتصار کے حوالے سے قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کادرجِ ذیل قول نقل کیا ہے اہمیت کے پیش نظر مکمل اقتباس پیشِ خدمت ہے: ’’وأما الکتابۃ فلم یفرض اللّٰہ علی الأمۃ فیہا شیئا،إذ لم یأخذ علی کُتّاب القرآن وخُطّاط المصاحف رسماً بعینہ دون غیرہ أوجبہ علیہم وترک ما عداہ....وکان الناس قد أجازوا ذلک وأجازو أن یکتب کل واحد منہم بما ہو عادتہ ، وما ہو أسہل وأشہر وأولیٰ، من غیر تاثیم ولا تناکر، علم أنہ لم یؤخذ فی ذلک علی الناس حدٌّ مخصوص کما أخذ علیہم فی القراءۃ والأذان۔ والسبب فی ذلک أن الخطوط إنما ھی علامات ورسوم تجری مجری
Flag Counter