اس رسم پر پوری اُمت کا اجماع ہے کسی سے مخالفت منقول نہیں ہے۔ ’المقنع‘میں اشھب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص مصحف لکھناچاہتا ہو تو کیاوہ آج کے نئے ایجاد شدہ رسم الخط میں لکھ سکتا ہے ؟توانہوں نے فرمایا: نہیں !بلکہ اس کو پہلے رسم الخط[رسم عثمانی]پرہی لکھنا چاہئے۔ ٭ امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء اُمت میں سے کسی نے بھی امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کی مخالفت نہیں کی۔ ٭ ملا علی قاری رحمہ اللہ کی کتاب ’شرح العقیلۃ‘ میں امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد مذکور ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے جو کہا ہے وہی حق ہے، کیونکہ اس میں پہلی حالت(رسم عثمانی)کی بقاء اور حفاظت ہے جس کو بعد والے طبقات نے پہلے طبقات سے سیکھا ہے۔ ٭ اِمام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الف، واؤ اور یاء وغیرہ کی کتابت میں رسم عثمانی کی مخالفت کرنا حرام ہے۔ ٭ اِمام بیہقی رحمہ اللہ شعب الایمان میں فرماتے ہیں کہ جو شخص مصحف لکھنا چاہتا ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسم عثمانی کی حفاظت کرے اور اسی کے مطابق لکھے،نہ اس کی مخالفت کرے اور نہ ہی اس میں کوئی ردوبدل کرے، کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ عالم، دل و زبان کے سچے اور امانت دار تھے۔ہمیں ان سے زیادہ بڑا عالم ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ٭ امام جعبری رحمہ اللہ وغیرہ نے ائمہ اربعہ سے رسم عثمانی کے واجب الاتباع ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ ٭ استاد عبدالرحمن بن القاضی المغربی رحمہ اللہ مذکورہ آثار نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ رسم عثمانی کے علاوہ کسی اور رسم میں قرآن مجید لکھنا جائز نہیں ہے اور رسم عثمانی کے عامۃ الناس کو سمجھ نہ آنے کی اس علت کو توجہ نہیں دی جائے گی کہ لوگ رسم عثمانی کو درست طریقہ سے پڑھ نہیں سکتے۔یہ کوئی قابل قبول علت نہیں ہے،کیونکہ اُمت کے ہر فرد پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق سیکھے اور پڑھے اور کسی شخص کا رسم عثمانی کے خلاف لکھنا مردود ہے کیونکہ رسم عثمانی کے موافق واجب الاتباع ہونے پر امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ ٭ صاحب فتح الرحمن مذکورہ آثار ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ رسم عثمانی میں جہاں الف ہے وہاں الف لکھنا ،جہاں کلمہ متصل ہے وہاں متصل لکھنا اور جہاں منفصل ہے وہاں منفصل لکھنا واجب ہے۔ اسی طرح جہاں تاء ہے وہاں تاء اور جہاں ھاء ہے وہاں ھاء سے لکھنا واجب ہے اور جو اس رسم کی مخالفت کرے گا وہ گناہگارہے۔ ٭ ابن الحاج کی’المدخل‘میں ہے کہ مصحف لکھنے والے پر زور دیا جائے کہ وہ عصر حاضر کے جدید رسوم کو چھوڑ کر اس رسم الخط کو اختیار کرے جس پر امت کا اجماع ہے اور جس پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لکھوایا تھا۔ ٭ شرح الطحاوی میں ہے کہ جو شخص قرآن مجید لکھنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ کلماتِ قرآنیہ کو مصحف عثمانی کی ترتیب پر منظم کرے،کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہے۔ ٭ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی کتاب الشفاء میں ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ دو گتوں کے درمیان ’’الحمد اللّٰہ رب العالمین سے شرو ع ہوکر من الجنۃ والناس تک‘‘ ہے وہ قرآن ہے، اللہ کی کلام اور وحی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے اس میں جو کچھ موجود ہے وہ سب برحق ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر اس |