مضائقہ نہیں تھا۔ رسم قرآنی کی توقیفیت جمہور اہل علم کے نزدیک قرآن مجید کا رسم توقیفی ہے،اور کتابت قرآن مجید میں اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاتبین وحی موجود تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس رسم میں قرآن مجید کو لکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتابت کو قائم رکھا۔ آپ کا زمانہ گذر جانے کے باوجود قرآن مجید بغیر کسی تغیر و تبدل کے اپنی اسی کتابت پر موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ وہ کاتبین وحی کو حروف و کلمات کے رسم کے بارے میں بھی راہنمائی فراہم کیا کرتے تھے۔جیسا کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: (( ألق الدواۃ،وحرف القلم،وانصب الباء،وفرق السین،ولا تعور المیم،وحسن اللّٰہ ، ومد الرحمن، وجود الرحیم، وضع قلمک علی أذنک الیسریٰ فإنہ أذکر لک)) ’’دوات کھلی رکھو، قلم ترچھا پکڑو، باء کو کھڑا کرو، سین کو علیحدہ کرو، میم کو ٹیڑھا مت کرو، لفظ اللہ کو خوبصورت بناؤ، لفظ الرحمن کو لمبا کرو، لفظ الرحیم کو واضح کرو اور اپنی قلم اپنے بائیں کان پررکھو، بے شک یہ زیادہ یاد دلانے والی ہے۔‘‘ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لکھا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے املاء کروایا کرتے تھے، جب میں وحی لکھنے سے فارغ ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اس کو پڑھو،پس میں پڑھتا، اس میں اگر کوئی نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم درست کروا دیتے تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی رسم پر صحف میں لکھوایا۔پھر انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اسی رسم پرمصاحف لکھوائے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو قائم رکھااو رکسی نے بھی مخالفت نہ کی۔ حتیٰ کہ تابعین وتبع تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ آپہنچا اور کسی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ اس نے قرآن کے رسم کو رسم عثمانی سے کسی دوسرے رسم کی طرف بدلنے کا نظریہ رکھا ہو،بلکہ یہی رسم عثمانی کتابت مصاحف میں قابل احترام و اطاعت باقی رہا۔ اور یہ امر بڑا واضح ہے کہ ہر وہ عمل جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو یاجس کو آپ نے باقی رکھا ہو،اس عمل میں آپ کی پیروی کرنا واجب اور ضروری ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ [آل عمران :۳۱] (اے پیغمبر!) کہہ دے(ان مشرکوں یا یہود یا نصاریٰ یا مسلمانوں سے) اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری راہ پر چلو، اللہ بھی تم سے محبت رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاًخلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا بھی واجب ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( فإنہ من یعیش منکم فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی، عضّوا علیھا بالنواجذ )) [ سنن ترمذی : ۲۸۹۱] ’’تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا، عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس(اس صورتِ حال میں ) میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے رکھنا اس کو مضبوطی سے تھام لینا۔‘‘ |