Maktaba Wahhabi

531 - 933
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت ِمدینہ سے پہلے اس پرعمل کیاکرتے تھے، ان کے علاوہ کوئی اس پر عمل نہیں کرتاتھا، اس وجہ سے اس کو مکی قراء و علماء نے نقل کیاہے۔‘‘ [جامع البیان:ص۷۹۷] اگر کوئی معترض یوں کہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پہلے ہی ہجرت کرچکے تھے، تو دارِ کفر مکہ میں کون قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل کرتا تھا؟ اس بات کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ مکہ میں کمزور مسلمان باقی رہ گئے تھے، جس کی طرف اللہ نے ان آیات میں اشارہ کیا ہے: ﴿وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ....الآیۃ﴾[النساء :۷۵] اور ﴿وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ....الٓایۃ [الفتح :۲۵] ان پیچھے رہ جانے والوں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے، جن سے تکبیر مروی ہے۔ [غیث النفع:۳۸۹] اہل اَدا کا امام بزی رحمہ اللہ کے لئے صرف تکبیر پڑھنے پر اتفاق ہے، اگرچہ سیدنا قنبل رحمہ اللہ کے لئے تکبیر اور عدم ____________________ (۱) حدیث اور علم تجوید وقراء ات میں ضبط کا معیار اور پیمانہ ہی مختلف ہے کہ علم حدیث میں ضعیف الحفظ حضرات کو علم تجوید وقراء ات میں ضعیف الحفظ خیال کیا جائے۔ علم حدیث ’مراد الٰہی‘کی روایت سے عبارت ہے، جس میں روایت بالمعنی کی گنجائش ہے، جبکہ علم القراء ات الفاظ الٰہی سے تعلق رکھتا ہے، جس میں روایت باللفظ شرط ہے۔ روایت بالمعنی کی گنجائش کی وجہ سے ایک عادل اور بہتر حافظے والا شخص ایک دفعہ بات سن لے تو اسے اپنے الفاظ میں آگے بیان کرسکتا ہے، جبکہ روایت باللفظ میں مضبوط حافظے والے کافی سارے افراد کا مل کر حفاظت ِ کلمات کرنا بھی مشکل ہے۔ اسی لیے روایت ِقرآن کے لیے اُصولی تواتر ضروری قرار دیتے ہیں، جبکہ حفاظت ِکلمات کے لیے تعامل ِ اُمت اتفاقی طور پر یہ جاری رہا ہے کہ حلقات کی صورت میں قرآن مجید کو حفظ کروایا جاتا ہے۔ایک ایک آیت کو جس طرح طلبائے حفظ محنت سے بیسیوں بار بغیر معنی سمجھے تکرار کے ذریعے حفظ کرتے ہیں، وہی ضبط ِقرآن کا عملی نمونہ قرار پا چکا ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ضعیف حافظہ والے طلبہ کو ایک آیت یاد کرنے میں جس قدر زیادہ محنت درکار ہوتی ہے، اسی قدر حفظ میں پختگی ہوتی ہے، جبکہ سریع الضبط جس قدر جلد حفظ کرتا ہے، اسی قدر جلد بھول جاتا ہے۔ گویا روایت ِقرآن میں حفظ کا اصل معیار ہی یہ ہے کہ یہاں رٹا لگا کر ایک شے یاد کی جاتی ہے، جبکہ روایت سنت میں یہ اُسلوب سرے سے مفقود ہے۔ الغرض وہ لوگ جو عام علوم بشمول علم حدیث میں حافظہ کے اعتبارسے حد درجہ ضعیف ہوتے ہیں، وہی ضبطِ قرآن میں مضبوط حافظہ والوں سے زیادہ پختہ ہوتے ہیں،بلکہ اردو زبان میں تو اب یہ محاورہ بن گیا ہے کہ نابینا افراد کو ’حافظ صاحب‘ کے نام سے بلایا جاتا ہے اور انکا حفظ معیاری ترین سمجھا جاتا ہے۔ مؤلف موصوف کا علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ کے اَقوال پیش کرنے سے مقصود بھی یہی ہے کہ اَئمہ عشرہ اور ان کے جلیل القدر رواۃ نے اپنی تمام تر توجہ علم تجوید وقراء ات کی طرف مبذول کرلی تھی، حتی کہ ان کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ دیگر علوم میں اشتغال فرماتے۔ اس بارے میں جو حضرات تحقیق کرنا چاہیں کہ ان اَئمہ کا قرآن کریم سے کیسا تعلق تھا؟انہیں چاہیے کہ علم تجوید وقراء ات اور علم الحدیث کی تراجم رواۃ کی کتابوں کو کھنگالیں۔ معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں حلقاتِ تحفیظ میں دو تین سال وقت صرف کرنے والے طالب علم کے بالمقابل ان کی زندگی کے جمیع اَیام اور ہر دن کے تمام لمحات کس طرح قرآن کریم کی تعلیم وتعلّم اور تلاوت کے لیے مخصوص تھے۔ چنانچہ علم تجوید وقراء ات میں ان کا ضعیف الضبط ہونا تو ایک طرف، اس علم میں ان کا شمار قوی ترین حافظے والوں میں سے ہوتا تھا کہ قرآن کریم کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف تمام نقاط اور حرکات وسکنات کے ان کے نوکِ زبان تھا، جس کی مثال شاید امام بخاریa کے ضبط فی الحدیث سے دینا ممکن ہو۔ مزید تفصیل ’تعارف علم القراء ات‘ مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [ مدیر]
Flag Counter